کیا نیا پاکستان بھی سوشل میڈیا پر ہی بنے گا ؟
آپ ہماری ہر منطقی بات کا بُرا منائیے لیکن جب تک وزنی جواب نہیں دینگے ہم سوالات اُٹھاتے رہیں گے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے اور ہر پاکستانی کا حق بھی- آپ غلط سوال کا جواب “روک سکو تو روک لو” کہہ کر ضرور دیجئے مگر جائز بات پر آپ کو روکیں گے بھی اور ٹوکیں گے بھی- موجودہ ایم کیو ایم کی بُرائیاں آپ مجھ سے زیادہ نہیں کرتے ہونگے لیکن آپ کس منہ سے "اپنوں" کا طعنہ دیتے ہیں ؟ عامر لیاقت صاحب کیا ہزارےوال ہیں ؟ فیصل وواڈا صاحب بلوچی ہیں؟ علی زیدی پنجابی ہے؟ عمران اسماعیل صاحب سندھی ہیں یا صدرِمملکت کسی انوکھی قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کے اپنے تو آج پورے ملک پر براجمان ہیں- مان لیا نہیں لا پائے ’اپنا‘ وزیراعلی لعنت بھیجیں- لیکن آج تو آپکے پاس محلے کے ایم پی اے کے دفتر سے لیکر ایوانِ صدر تک کی چابی ہے- کیا آپ ختم کروائینگے کوٹہ سسٹم ؟ کیا آپ کراچی میں موجود سندھ سیکریٹریٹ میں کراچی کے شہریوں کو نوکری دینگے ؟ کیا آپ فوج میں بالعموم سندھ اور بالخصوص کراچی کے نوجوانوں کا کوئی کوٹہ مختص کرینگے ؟ کیا کراچی میں مصطفی کمال جیسا کوئی شخص لگا پائیں گے جو ساڑھے 23 گھنٹے کام کرکے ایک بار پھر کراچی کو کھڑا کر سکے ؟ کل تک تھے قصوروار”اپنے”پر آپ کے اپنوں نے کون سا جھنڈا کہاں گاڑا دکھائیے، بتائیے ؟۔
“اپنے”تو تھے مجبور کے انکا اپنا گورنر انکی نہیں سنتا تھا پر آپ کےپاس تو تمام تر دروازے ہیں- جہاں سے چاہیں کام لیں اور بنائیں اس شہر/صوبے/ملک کو، پر ایک چیز ہوتی ہے شعبدےبازی- آپ کے اپنوں کو اُس سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی- کام قانون سازی کرنا ہے پر آپ کبھی چینی سفارت خانے پر بندوق تانے اور کبھی لائن آف کنٹرول کے قریب تباہ شدہ جہاز کے اُوپر چڑھ کر کبھی برنس روڈ پر ہیوی بائکس (بمعہ پروٹوکول) چلا کر ہیرو گیری کرتے دکھائی دیتے ہیں- سستی شہرت کیلیے موجودہ حکومت کی تصاویر گٹر پر لگاتے ہیں، کبھی گٹر کا پانی ایوان صدر کے دروازوں پر ڈال آتے ہیں- کبھی ساحل سمندر سے پانی کی بوتلیں چُنتے ہوئے فوٹو سیشن کرواتے ہیں پر قومی اسمبلی کا ممبر بن جانے کےبعد(مقصد پورا ہو جانے کے بعد) گدھے کے سر سے سینگھ ہو جاتے ہیں-
رمضان ٹرانسمیشن کرتے ہیں پر حلقے میں جاتے وقت طبیعت بگڑ جاتی ہے، چینل پر بیٹھ کر حالات کا رونا پیٹنا مچاتے ہیں پر اپنے عہدے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، رمضان میں روزے کے احترام کا درس دیتے ہیں پر اپنے حلقے میں بجلی چوری نا ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا سوال نہیں اُٹھاتے، ایک بھائی کو مخولیوں سے فرصت نہیں، کوئی گانا بجانا کر رہا ہے کوئی جھوٹی سچی قطاروں میں لگ کر تصاویر بنوارہاہے-جس کا جو کام ہے وہ، وہ کر ہی نہیں رہا، وزیراعظم ہاؤس کو اسلام آباد کا ڈی چوک بنایا ہوا ہے، اور کنٹینر پر چڑھ کر چڑھے چلے جارہے ہیں۔
آپ پوچھیں اپنے آپ سے کہ حکومت میں آنے کی خوشی پورے دورِاقتدار منانی ہے یا سرکاری مشینری سے کوئی کام بھی لینا ہے؟ عملی طور پر کچھ کرنا ہے یا نیا پاکستان بھی سوشل میڈیا پر ہی بنے گا ؟ گھر بنانے تو دور آپ کسی غریب کا گھر سلامت چھوڑیں گے؟ نوکری دینا تو دور اس بجٹ کے بعد کاروباری بدحالی سے پیدا ہونے والی بیروزگاری کا کیا ہوگا ؟ مہنگائی مزدور کی آمدن سے 300 فیصد زیادہ ہونے پر جرائم میں کیسے اضافہ نہیں ہوگا ؟ پانی کی کمی کیسے پوری ہوگی؟ بجلی کہاں سے پیدا کریں گے؟ قرضوں کی اقساط کیا کیا بیچ کر دینگے ؟ بلوچستان میں قانون سازی کیسے کریں گے ؟ اداروں کو کیسے ٹھیک کریں گے؟ یہ تمام تر مسائل وہ ہیں جو آپ کو درپیش ہیں اور یہ تمام تر سوالات وہ ہیں جو ہر پاکستانی آپ سے پوچھ رہا ہے، اور ان کا جواب یقیناً “روک سکو تو روک لو” نہیں ہے، اس سے بات گھمائی اور نظر چرائی، ضرور جا سکتی ہے پر سوالات ختم نہیں کیے جا سکتے- آپ خود رُکیں، ٹھہر جائیں، اور لمبی سانس لیں(دونوں نتھنوں سے) اور سوچیں کہ آپ واقعی وزیر اعظم بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں یا کسی بھی جماعت کے عام چئیرمین کی طرح بس پارٹی کا سربراہ ہی بنے رہنا بہت ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں