کرپشن ہر سزائے موت ہوئی توآبادی کم ہوجائے گی
ا قومی احتساب بیورو نے سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپوراور مسلم لیگ (ن)کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سمیت تینوں کوانکی درخواست ضمانتیں مسترد ہونے کے بعدانھیں گرفتار کر لیا ہے۔۔آصف علی زرداری کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیاگیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کو اجازت دی تھی کہ اگر وہ چاہے تو آصف زرداری اور فریال تالپور دونوں کو گرفتار کرسکتی ہے تاہم نیب نے پہلے دن صرف زرداری کی گرفتاری پر اکتفا کیا۔ قومی احتساب بیورو کے مطابق جعلی اکاؤنٹس کے معاملے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرِ پاکستان آصف زرداری کے بعد ان کی بہن اور سندھ اسمبلی کی رکن فریال تالپور کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فریال تالپور کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع زرداری ہاؤس میں ہی رکھا گیا ہے۔جسے چیئرمین نیب نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سب جیل قرار دے دیا ہے۔نیب کے بیان کے مطابق فریال تالپور تاحکمِ ثانی زرداری ہاؤس میں ہی مقید رہیں گی۔ ان کی عزتِ نفس کا ماضی میں بھی خیال رکھا گیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا اور میڈیا کو اس بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔یہ بات گزشتہ ماہ سے ہی باخبر حلقوں میں گشت کررہی تھی کہ عید کے فوری بعد زرداری کی گرفتاری عمل میں اآجائے گی۔ اس کی تاویل یہ پیش کی جارہی تھی کہ بجٹ انتہائی خوفناک ہے جس میں عوام کے سارے کس بل نکل جائیں گے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کو حکومت روکنے میں بالکل ناکام ہوچکی ہے اور ایوان اقتدار میں آئی ایم ایف کی ٹیم اپنا کام بھرپور طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ اس لیے عوام کی توجہ بجٹ سے ہٹانے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ زرداری کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ اس کے نتیجے میں مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں زرداری کی گرفتاری کی حمایت اور مخالفت میں مشغول ہوجائیں گے اور یوں عمران خان کی حکومت بجٹ کے اعلان کے مشکل مرحلے سے گزر جائے گی۔ باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سرکار نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی گرفتاری سے اسموک اسکرین کا کام لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں وہ من مانے اقدامات کرسکے اور عوام کو غیر متعلق معاملات میں مشغول کردیا جائے۔ اس کی سن گن زرداری اور ان کی پارٹی کو بھی تھی، اسی لیے زرداری اور پھر فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں مزاحمت کی حکمت عملی کے لیے گرفتاری کے روز صبح ہی پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ زرداری کی گرفتاری کی صورت میں سرکاری حکمت عملی کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے اور توقعات کے عین مطابق میڈیا پر عوامی مسائل کے بجائے زرداری کی گرفتاری ہی پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔ قومی احتساب بیورو لا ہور کی ٹیم نے لاہورہائی کورٹ میں جسٹس مظاہرعلی اکبر کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے رمضان شوگرمل، صاف پانی اور آمدن سے زائداثاثوں کیس میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کی ضمانت مسترد ہونے پر اسے گرفتار کر لیا ایسے حالات میں اپوزیشن بجٹ کے بخیے ادھیڑنے کے بجائے اپنے لیڈروں کی گرفتاری پر واک آوٹ کررہی ہے۔ نیب کے چیرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ماضی کے اور موجودہ ارباب اختیار کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا ہوں کہ جو کرے گا وہ بھرے گا، ہر آدمی جس نے کرپشن کی ہے اسے حساب دینا ہوگا۔ اگر کرپشن پر سزائے موت مقرر ہوگئی تو ملک کی آبادی بہت کم ہوجائے گی جو ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ اہم رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ گئی ہے اور یہ ہی حکومت چاہتی ہے۔حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کا ایسا ہی کام کرکٹ ورلڈ کپ سے بھی لینا چاہ رہی تھی مگر بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی کی بناء پر اس مرتبہ پاکستان میں کرکٹ کا بخار ابھی تک پوری طرح قوم کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکا۔ بھارت کے ساتھ میچ میں اگر پاکستان فتح یاب ہوجاتاتو شاید حکومت کی مطلب براری ہوجاتی۔ موجودہ صورتحال کو کہیں سے بھی مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان کی معاشی ٹیم نے اب تک جتنے بھی فیصلے کیے ہیں، انہیں نرم سے نرم الفاظ میں احمقانہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل بے قدری کی ابھی تک عمران خان کی ٹیم کوئی توجیہ نہیں پیش کرسکی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا انحصار درآمدات پر ہے۔ دالوں، خوردنی تیل سے لے کر، پٹرول،ادویات، کھاد اور مشینری تک ہر چیز پاکستان میں دآمد ہی کی جاتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری سے نہ صرف ساری اشیاء مہنگی ہوگئیں بلکہ اس کا اثر ہر چیز پر پڑا۔ فرنیس آئل سے بننے والی بجلی بھی مہنگی ہوگئی اور پاکستان کی اپنی پیداوار قدرتی گیس بھی۔ قدرتی گیس اس لیے مہنگی ہوگئی کہ پاکستان نے گیس نکالنے والی کمپنیوں سے گیس عالمی نرخ پر ڈالر میں خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح بینک دولت پاکستان میں بیٹھی آئی ایم ایف کی ٹیم ہر کچھ دن بعد شرح سود میں اضافہ کردیتی ہے جس کی بنا پر مارکیٹ میں زر کی فراہمی سکڑ گئی ہے اور ساتھ ہی معاشی سرگرمیاں بھی۔ درآمدات، برآمدات، صنعتکاری، تجارت ہرجگہ ایک انجماد کی کیفیت ہے جس نے پورے ملک میں تباہی پھیر کر رکھ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان پر بیرونی قرضوں کی مالیت میں کئی ہزار روپے کا راتوں رات اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں صورتحال کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کے بجائے سرکار نان ایشوز میں عوام کو الجھا کر راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ عوام ان سے وہی توقعات رکھتے ہیں جن کے وعدے کرکے وہ برسراقتدار آئے ہیں۔ ان وعدوں میں ملک سے لوٹی گئی رقم کی واپسی، تمام میگا اسکینڈلز کی تحقیقات اور مجرموں کو مثالی سزاؤں کا دینا، پانی و بجلی جیسی سہولتوں کی بلاتعطل فراہمی، پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ معقول حد تک کم کرنا، سرکاری اداروں سے کرپشن کا خاتمہ اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی شامل ہیں۔ عمران خا ن کو برسراقتدار آئے ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا ہے مگر بدقسمتی سے ان کا ٹریک ریکارڈ یہی بتارہا ہے کہ یہ سارے وعدے کرتے وقت انہیں بھی احساس نہیں تھا کہ حکومت کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ وہ جس کے حوالے کریں گے وہ صرف بدترین حادثے سے دوچار کرے گا مگر وہ ایسے ڈرائیوروں سے جان چھڑانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ کسی منجھے ہوئے اور محب وطن ڈرائیور کے حوالے کریں، وہ روز ڈرائیور کے حق میں تاویلات لے کر آن موجود ہوتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ گاڑی ہی خراب ہے اور کبھی موسم کی خرابی اور ٹوٹی سڑک کو دوش دینے لگتے ہیں۔ عمران خان صاحب ہماری آپ سے گزارش ہے کہ حقائق سے آنکھیں نہ چرائیں اور علاج بالمثل کرنے کے بجائے معاشی خرابی کا علاج معروف طریقوں سے کریں۔دوسری جانب اپوزیشن چیرمین نیب کے فیصلوں کو جانب دار قرار دے رہی ہے۔