”پراکسی“ سیاست
وزیر اعظم عمران خان کا بار بار یہ کہنا کہ این آر او نہیں دوں گا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ہر بار تردید کہ این آر او کون مانگ رہا ہے، ایک ایسی صورت حال ہے جس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماء جنہیں منی لانڈرنگ جیسے سخت مقدمات کا سامنا ہے، ان مقدمات سے کسی بھی حالت میں اپنی اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کو سپریم کورٹ عمر بھر کے لئے سیاست سے نااہل قرار دے چکی ہے اور ان کی صاحبزادی مریم کو سات سال کی قید اور داماد صفدر کو ایک سال کی قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ اب آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو مقدمات میں تفتیش کا سامنا ہے۔ دونوں قومی احتساب بیورو کی حراست میں ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ناجائز طریقوں اور ذاتی اثر و رسوخ سے پیسہ بنانے کا رواج نیا نہیں ہے۔ اس میں نئی بات یہ پیدا ہوئی کہ نواز شریف اور آصف زرداری منی لانڈرنگ میں ملوث ہو گئے جو ان کے گلے پڑ گیا۔ منی لانڈرنگ دنیا بھر میں ایسا جرم قرار پا گیا ہے جس کی معافی کا کوئی راستہ نہیں بنتا ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں ان کے خلاف مقدمات سے نجات کے لئے مختلف حربے اختیار کئے ہیں۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کی نیب کی جانب سے گرفتاری کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کئے،لیکن یہ مظاہرے کسی طور پر اتنے موثر ثابت نہیں ہوئے جن کی وجہ سے نیب کا کارروائی یا وفاقی حکومت پر کوئی اثر پڑتا۔ دونوں پارٹیوں نے تکیہ کیا ہے کہ ان کے کارکن مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی حمایت میں نکلیں گے۔ نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ ماضی میں بھی کام نہیں کرسکا اور ابھی بھی کوئی توقع نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی والے بھی یہ ہی نعرہ استعمال کر رہے ہیں، لیکن مخصوص کارکنوں کے علاوہ عوام پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا ہے۔ دونوں پارٹیوں نے اپنی سیاست کا دارومدار ”کارپوریٹ“ بنیاد پر رکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مخصوص خاندان اور افراد تو ان کے ساتھ ہیں، لیکن عوام الناس ان کی کسی اپیل پر کان نہیں دھرتے ہیں۔ سیاست کے اسلوب وہ نہیں رہے جو ماضی میں عوامی تحریکوں کا سبب بنا کرتے تھے۔ عوام کو جوڑنے کی بجائے ایسے اقدمات کئے جاتے رہے جن کی وجہ سے عوام سیاسی جماعتوں سے دور ہی نہیں بلکہ متنفر ہوتے چلے گئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوں یا مہنگائی کا طوفان، عوام کسی بہانے بھی سڑکوں پر آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر عوام تحریک سے جڑے تو معجزہ ہی ہوگا۔ مختلف وجوہات کی بناء پر سیاسی پارٹیوں سے جڑے لوگ تو اپنی اپنی حاضریاں لگانے کے لئے مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں،لیکن وہ بھی ایک حد تک۔ عوامی سطح کی کسی بھی عوامی تحریک کے لئے عوام کی شرکت کے بغیر کام نہیں بنتا ہے۔ سیاسی رہنماء خواہ کچھ ہی کریں یا کہیں، وہ عام طور پر عوام سے ہاتھ تک نہیں ملاتے ہیں۔ آصف زرداری سے اپنی گرفتاری سے کافی عرصہ قبل سندھ میں مختلف علاقوں کا دورہ کیا، لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اپنے خطابوں میں انہوں نے مقتدر حلقوں کو پیغامات بھی دئے، عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب بھی دیا گیا، لیکن کہیں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کسی بھی حلقے نے ان کے پیغامات کو اہمیت دی۔ انہوں نے مفاہمت کی سیاست میں ناکامی کے بعد مزاحمت کی سیاست کا آغاز کیا جو اپنا رنگ نہیں جما سکی۔
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کا بڑے اور طاقتور سیاسی گھرانوں سے تعلق ضرور ہے۔ البتہ ان کی شخصیات میں محدود حلقوں میں تو کشش ہے،لیکن عوام کے لئے کوئی کشش نہیں پائی جاتی ہے۔ ایک تو دونوں کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام میں ان کے لئے کشش یا ہمدردی پیدا ہو۔ مہنگائی کے خلاف نعروں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے حالانکہ مہنگائی سے عام لوگ ہی پریشان ہیں۔ عام شخص اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار بھی نہیں ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ میثاق جمہوریت پر مرحومہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیاں مفاہمت تو ہوئی جو طویل عرصہ نہیں چل سکی۔ پاکستانی سیاست میں سیاست داں اصولوں کی بجائے اپنے منتخب نمائندوں کی تعداد پر یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی معاہدہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ بلاول کو مریم نے اپنے جاتی امراء کے محل میں کھانے پر مدعو کیا، اس ملاقات اور کھانے کا مقصد عمران خان کی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی حکمت عملی پر غور کرنا بھی شامل تھا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک ہی دونوں کے درمیاں وجہ اتفاق بن سکتی ہے۔ اس محاذ آرائی کے لئے دونوں رہنماؤں کے درمیاں کس حد تک اتفاق ہوتا ہے، یہ تو ان کی حکمت عملی دیکھ کر ہی اندازہ ہو سکے گا۔ یہ دونوں رہنماء ”پراکسی“ ہیں۔ جنہیں اپنے ہر ہر قدم کے بارے میں اپنے والدین سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کا انحصار ہی ”پراکسی“ پر ہے۔ پراکسی کے ذریعہ سیاست میں کسی بھی معمولی غلطی کا انجام، بے نتیجہ اور بے سود ہی ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسی ہی ایک بڑی دعوت میں نواز شریف نے آصف زرداری کو بھی مدعو کیا تھا، لیکن اس کے بعد دونوں میں کھل کر اختلافات سامنے آئے تھے اور فریقین ایک دوسرے کے خلاف وہ ہی الزامات عائد کرتے رہے جن کی وجہ سے دونوں کو آج مقدمات کا سامنا ہے۔
پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ، دونوں سیاسی جماعتوں میں رہنماؤں اور کارکنوں کی سطح پر بھی اختلافات کی نوعیت معمولی نہیں ہے۔ ہجوم تو انتخابات کے موقع پر باہر آتے ہیں، کسی تحریک کے لئے تو رہنماء اور کارکن ہی باہر آتے ہیں، ان کے درمیان ہی اعتماد کا فقدان ہے۔ اس حد تک ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے کہ ایک دوسرے سے گفتگو بھی نہیں کرتے ہیں۔ آصف زرداری کی انتخابات میں نامزدگیاں اور لوکل باڈیز میں نام زدگیاں، مشکلات کا سبب بنی ہیں۔ اکثر دولت مند خاندانوں کو ترجیح دی گئی تھی۔ ن لیگ میں مریم سمیت عہدیداروں کی نامزدگیوں نے باہمی اختلافات کو جنم دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماء اپنے اپنے جلسے جلوسوں میں جانے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔ کسی بھی امتحانی موقع پر پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی پیش آسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ”کارپوریٹ“ بنیاد پر سیاست ہے۔ رشتہ داروں کو اہمیت اور مواقع فراہم کرنا ہی سیاسی تباہی کا سبب ہیں،لیکن سیاست داں ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں ان کی پارٹیوں میں موجود رہنماؤں پر اعتماد نہیں ہے۔ پار ٹیوں میں کھل کر بحث سے اجتناب برتنا اور پہلے سے ذہن میں موجود فیصلوں پر اتفاق کرانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اب پراکسی پر انحصار ان کی سیاست کی بنیاد بنا ہے جو زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا۔