ہمارا جلو پارک اور ہائیڈ پارک
یہ اسی عید کے روز کی بات ہے، لیکن ہم آپ کو اس کی کہانی بعد میں سنائیں گے، ابھی ایک اور قصہ سنیں۔یہ گزشتہ صدی کا قصہ ہے۔ 1983ء لندن میں جو ورلڈ کپ کھیلا جا رہا تھا اور ہم دیکھنے کے مشتاق تھے۔ چھ برس کی انتہائی حبس زدہ زندگی سے کچھ روز کا چھٹکارا گویا بادِ صبا میں سینہ کھول کر سانس لینے کا موقع تھا۔ ان دنوں انگلستان کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ البتہ ہیتھرو ایئرپورٹ سے واپسی کی فلائٹ پر نشست فراہم کر دی جاتی تھی۔ ایئرپورٹ پر سوالوں کی بوچھاڑ سے ہم تو بچ نکلے اور کچھ دیر بعد اپنے آپ کو (Bays water) سڑک پر ایک ایسے ہوٹل میں لے جانے میں کامیاب ہو گئے، جو ہمارے بجٹ میں خسارے کا باعث نہ تھا، تھکن اتاری تو پتہ چلا کہ ہمارے ہوٹل کے سامنے ہی وہ پارک ہے جس میں جمہوریت کی متحرک زندگی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور وہ تھا ہائیڈ پارک کا سپیکرز کارنر۔ موسم گرما میں لندن کے دن بہت لمبے ہوتے ہیں۔ سورج گیارہ بجے غروب ہوتا ہے، سو ہم نے اطمینان کے ساتھ شام آٹھ بجے ہائیڈ پارک جانے کا ارادہ کیا۔ ہائیڈ پارک گئے تو واک کرنے تھے، لیکن پارک کی خوبصورتی نے احساس جمال کومہمیز دی، ہائیڈ پارک ہنری ہشتم نے اپنے لئے ایک شکار گاہ کے طور پر سولہویں صدی میں بنایا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے کچھ طبقات کو بھی اس میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ آج یہ دنیا بھر کے عوام کے لئے ایک خوبصورت اور صحت مند تفریح گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاں سرپنٹا بن جھیل ہے۔ جہاں سارا سال آپ کو پانی کے پرندے کھیلتے نظر آئیں گے۔ ہائیڈ پارک کا کل رقبہ 300 ایکڑ ہے۔ ہمارے جلو پارک سے چھ ایکڑ کم۔
ہائیڈ پارک میں گھومتے ہوئے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیا ہم کبھی لاہور میں بھی ایسی ہی تفریح گاہ قائم کر سکیں گے جہاں لوگ سیر کر سکیں، بچے پرندوں اور جانوروں سے دل بہلا سکیں، چائے اور کافی پی سکیں، کچھ کھا سکیں۔ ہمارے شہر میں لارنس گارڈن ہے، جسے اب ہم نے جناح باغ کا نام دیا ہے، ایک خوبصورت پارک ہے۔ یہ کبھی محکمہ زراعت کے زیرانتظام تھا، آج کل اس پر پی ایچ اے کی حکمرانی ہے۔ یہ باغ یہ پارک شام کے وقت سیر کرنے والوں کے لئے اور صبح قائد اعظم لائبریری میں مطالعہ کرنے والوں کے لئے فائدہ مند ہے، لیکن یہ ایسا پارک نہیں ہے جو پورے خاندان کو ایک دل پذیر تفریح کا سامان فراہم کر سکے۔ اس کے لئے ایک ایسے پارک کی ضرورت تھی جو لاہوریوں کے لئے ان کے تہواروں پر زندگی کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لمحات پیدا کر سکے۔ شاید یہی سوچ کر جلو پارک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جلو پارک لاہور کی ایک کامیاب کہانی ہے۔ جلو پارک جو آج ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر محنت اور ایمانداری سے عوام کی زندگی میں کچھ وقت کے لئے آسانیاں اور خوشیاں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ کامیاب ہو کر رہتی ہے اور اس کوشش پر نہ صرف انگلی اٹھانی مشکل ہوتی ہے، بلکہ وہ عوام سے مسرت آمیز داد بھی وصول کرتی ہے۔اس پارک کو خوبصورت بنانے میں لاہور ڈویژن کے فارست انچارج چودھری حیات حسن نے اہم اور قابل قدر محنت کی۔ جلو پارک لندن کے ہائیڈ پارک سے چھ ایکڑ بڑا ہے۔ ہائیڈ پارک 350 ایکڑ، جبکہ جلو پارک 356 ایکڑ پرمحیط ہے۔
بنیادی طور پر یہ پلان چار سو چھپن ایکڑ تھا۔ پی ایچ اے اس رقبہ میں سے 100 ایکڑ ہتھیانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس پارک کی تعمیر اور تکمیل میں بعض اہم واقعات بتاتے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے کوشش میں راستے ہمیشہ کھل جاتے ہیں۔ پارک سے جنوب مشرقی حصے میں ملٹری فارم نے خاردار تاریں لگا کر کچھ حصہ بند کر دیا تھا۔ فوجی افسران سے بات کرنا ذرا مشکل سمجھا جاتا ہے، لیکن اس پارک کے انچارج اشتیاق حسین نے جرأت کی اور اس وقت تعینات سٹیشن کمانڈر سے باڑ ہٹانے کی درخواست کی۔ سٹیشن کمانڈر نے فوری طور پر باڑ ہٹانے کے متعلق مشکلات ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ حالیہ عید کے روز پوتے پوتیوں سمیت جب جلو پارک گئے تو وہاں عوام کا جم غفیر تھا، لیکن پارک کی وسعت اور اتنظامات نے عوام کو کسی طور پریشان نہ ہونے دیا۔ موجودہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے پارک میں درجنوں فیملی ہٹ بنوا دیئے ہیں، جہاں ہر ہٹ پر باربی کیو کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ پارک میں بقول فیض احمد فیض ……”بے داغ سبزے کی بہار تھی۔
درختوں کے کنج تھے۔ جہاں سایہ ایک چھتر تھا“……خوبصورت روشیں، انار، آلو چے اور لیموں کے پودے اپنے گہرے سبز رنگوں میں گرمی کی کلفت کو دور کر رہے تھے۔ پارک میں کچھ عمارتوں کے سامنے خوبصورت چمن زار تھے، جنہیں ہم اب لان کہتے ہیں۔ سنا ہے اب ہماری نوکر شاہی بھی یہاں میٹنگ کرنا پسند کرتی ہے۔ عید کے روز کی سیاحت نے مجھے ایک بار پھر 80ء کی دہائی کے افریقہ کے زمبیا، زمبابوے اور لندن کے ان پارکوں کی یاد دلا دی جہاں ہم گھومتے رہے تھے، میری خواہش ہے کہ ہم جلو پارک کو ہائیڈ پارک لندن اور لکسمبرگ پارک پیرس کی طرح عوام کے لئے ایک خوبصورت تفریح گاہ بنا دیں۔ اس کے لئے چودھری حیات حسن کو پہلے سے زیادہ محنت کرنا ہو گی۔