ہسپتال، ڈراؤنا خواب بن گئے
اگر ڈاکٹروں کے ہاتھوں خود ڈاکٹروں کی زندگی محفوظ نہیں تو کوئی اور کیا توقع رکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر سلمان افتخار جنرل سرجری کے پوسٹ گریجوایٹ ٹرینی تھے۔ جنہیں لاہور کے سروسز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ وہ ڈاکٹر اپنے علاج کے لیے سٹاف کو مدد کے لیے پکارتا رہا لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ وہ بیچارے بار بار کہتے رہے کہ مجھے لگتا ہے مجھے کورونا ہے اور اسی عالم میں دنیا سے کوچ کر گئے۔ چند روز پہلے میری پھوپھی جان کی طبیعت ناساز ہوگئی، اسی لیے ہم انھیں اپنے پاس لے آئے۔ ہم نے ان کا کورونا ٹیسٹ لیا جو پہلے تو منفی آیا لیکن پھر جب چار دن بعد دوبارہ لیا تو وہ مثبت آگیا اور ہم نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے میو ہسپتال کی طرف دوڑ لگا دی۔ خدا کی رضا اسی میں تھی اور میری پھوپھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اس تمام عمل کے دوران میں نے وہاں کچھ ایسے دل خراش واقعات ہوتے دیکھے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گے۔ ہماری ہی طرح ایک خاندان جلدی میں آیا اور ان کے چہروں پر صاف صاف نظر آرہا تھا کہ مریض کی حالت سنجیدہ ہے۔ ان کے ساتھ پہلے تو ہسپتال کے گارڈ نے بدتمیزی کی کہ آپ یہاں گاڑی نہیں کھڑی کر سکتے۔ لڑکے نے نہایت مہذب طریقے سے اسے کہا کہ سٹریچر آنے دیں مریض کی حالت نازک ہے۔ لیکن مجال ہے اس گارڈ کے تلخ رویے میں فرق آیا ہو۔ جب اس نے گاڑی کے دروازے پر زور سے ہاتھ مارا تو لڑکا بھی آگ بگولہ ہوگیا اور غصے میں اسے پیچھے ہٹنے کا کہہ دیا۔
ایک طرف یہ تماشا ہورہا تھا وہیں دوسری طرف اسی خاندان کے دو افراد سٹریچر کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ جب انہیں سٹریچر ملا تو ان میں سے ایک نے سٹریچر بوائے کو کہا جلدی سٹریچر لے آؤ تو جواب میں سٹریچر بوائے نے اسے کہا تم خود لے آؤ،اس لڑکے کے چہرے پر بے بسی اور ناامیدی ظاہر ہوئی لیکن پھر بھی وہ ہمت کر کے سٹریچر لے گیا۔ پھر کورونا وارڈ کے اندر ایک ایسی خوفناک لاپروائی اور نالائقی کا مظاہرہ ہوا جو کسی بھی صورت سفاکیت سے کم نہیں۔ ایک مریضہ نے اپنا آکسیجن ماسک اتار کر کہا مجھے سانس نہیں آرہی۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی باقی سب کی طرح لگا شاید طبیعت خراب ہونے کے باعث وہ یہ کہہ رہی ہیں۔ لیکن پھر مریضہ کے پاس کھڑی لڑکی نے ڈاکٹر کو پکارا اور انہیں بلا کر کہا کہ ان کے آکسیجن ٹینک میں آکسیجن ہے ہی نہیں یعنی وہ سرے سے خالی ہے۔ یہ دیکھ کر وہاں سب کے چہرے پر حیرانی ظاہر ہوئی۔ صرف اتنا ہی نہیں پھر جب انہیں دوسرے وارڈ میں منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس منگوائی گئی تو کسی نے بھی مریضہ کو ایمبولینس میں لٹا نے کی زحمت گوارہ نہ کی اور بالآ ٓخر اسی خاندان کے دو بندوں نے مریضہ کو ایمبولینس میں لٹایا اور وارڈ لے جا کر نکالا بھی خود ہی۔ وارڈ میں بھی عجیب و غریب مناظر تھے۔
مثال کے طور پر ایک مریض بڑی بری حالت میں تھا اور ان کے گھر والوں کے چہروں پر پریشانی صاف صاف ظاہر ہو رہی تھی لیکن مریض کو منتقل کرنے والا پیرا میڈیکل سٹاف اپنے ہنسی مذاق میں لگا ہوا تھا۔ جب مریض کو ایک وارڈ کے باہر لے کر گئے تو وہاں سے ایک نرس نکلی جس نے صاف جواب دیتے ہوا کہا کہ یہاں آکسیجن ختم ہوگئی ہے انھیں کہیں اور لے جائیں۔ پریشانی کے عالم میں میں خود وارڈ کی پہلی منزل پر موجود تھا کہ اچانک وہاں پر بھی ایک اور تکلیف دہ واقعہ رونما ہوگیا۔ دو افراد ایک مریض کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ نرسوں کو مریض کی حالت سے متعلق معلومات دے رہے تھے۔ کہ وہاں بیٹھی نرسوں نے اپنا کرسیوں سے اٹھنا بھی معیوب سمجھا اور وہیں جمی رہیں۔ پیچھے سے ایک اور نرس آئی اور اس نے دریافت کیا کہ کیا ہوا ہے تو لڑکے نے بتایا کہ مریض کی نبض ڈوب رہی ہے، اس نرس نے ای سی جی کے ذریعے چیک کیا تو اس میں سیدھی لکیر آگئی۔ ڈیوٹی پر ڈاکٹر وہاں پہنچا تو اس نے نرسوں کو لائٹ کرنے کا کہا مگر وہاں کوئی انتظام نہیں تھا, مریض کے ساتھ آئے لڑکے نے فوراً اپنے فون کی لائٹ آن کر کے ڈاکٹر کو پکڑا دی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد بتا دیا کہ ان کا مریض دم توڑ چکا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کی موجودہ صورتحال یکایک پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ واقعات کا پورا سلسلہ ہے۔ یوں تو ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کبھی بھی بہت اچھی نہیں رہی لیکن یہ بات نوٹ کی گئی کہ 2010 ء کے بعد مختلف ہسپتالوں کے اندر نت نئی یونین بننا شروع ہوگئیں اور اس کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے لڑئی مار کٹائی کے واقعات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اسی حوالے سے آپ سب کے علم میں ہوگا کہ پی آئی سی میں پہلے ڈاکٹروں نے وکلاء کو مارا اور بعد میں تاریخ کا ایک المناک واقعہ رونما ہوا کہ وکلاء کے ایک پورے جلوس نے ہسپتال پر حملہ کر دیا۔ یہ تماشا کیوں ہوا؟۔ یقیناً تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہ رویہ ہمیں کہاں لے جائے گا اس کا سب سے پہلا نتیجہ تو یہ ہے کہ ادارے اپنے اصل کام سے ہٹتے جارہے ہیں۔ موجودہ سرکاری ہسپتال اپنے اصل کام سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ صحت کے شعبے میں دیگر محکموں کی طرح بہت زیادہ ابتری آئی ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر تو دور کی بات پیرا میڈیکل سٹاف نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ ایک دور تھا جب ایم ایس کا عہدہ بااختیار ہوتا تھا۔ وہ ہر ایک کو بلا کر پوچھ گچھ کر سکتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ عہدوں کو بے توقیر کیا گیا۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ ہسپتال ہو یا کچہری، بازار ہو یا تھانہ، جس کے پاس طاقت ہے وہ جو چاہے کرے کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں، اداروں کے لیے یہ صورتحال ایک سنگین چیلنج کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کن خیالات میں گم رہتے ہیں کہ ایک وقت وہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے معمولی سا زکام ہوگا پھر آپ صحت یاب ہو جائیں گے اور دوسرے لمحے وہ قوم کو سمجھاتے ہیں کہ یہ بڑی جان لیوا بیماری ہے اور لوگ گھروں میں ہی رہیں۔ ماضی میں جب ڈینگی وبا پھوٹی تو ٹیسٹوں کے نام پر زبردست لوٹ مار شروع ہوگئی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ٹیسٹ کی فیس نہ صرف 80روپے مقرر کی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا۔ ہمارے پاکستان میں تقریباً 90 فیصد لوگوں کی آمدنی بیس ہزار سے کم ہے اور یہاں سب سے سستا کورونا ٹیسٹ آٹھ ہزار روپے ہے جسکی ادائیگی پاکستان کے 95 فیصد لوگوں کی برداشت سے باہر ہے، پرائیویٹ لیبارٹریز اور ہسپتال لوٹ مار میں مصروف ہیں، قوم کو عفریت کا سامنا ہے مگر ان کا“سیزن“ لگا ہوا ہے،شوکت خانم لاہور، جو عوام کے پیسوں سے بنا ہے اور عمران خان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کورونا ٹیسٹ کا 9 ہزار لے رہا ہے۔ یعنی علاج تو دور کی بات ہم ابھی تک مناسب نرخوں پر ٹیسٹ کرانے کا نظام بھی وضع نہ کر پائے۔ اب تو عوام کو بھی پتا لگ گیا ہے کہ احتیاط سے لے کر علاج تک جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔