قومی اسمبلی، بی این پی مینگل کا حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) بی این پی مینگل نے حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا پی ٹی آئی سے اتحاد کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرتا ہوں، ایوان میں موجود اور اپنی بات کرتے رہیں گے، پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کر کے ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کیا جا رہا ہے، افسوس کی بات ہے یہا ں ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں، اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود گزشتہ بجٹ میں ساتھ دیا، وفاقی حکومت نے ہمیں کیا دیا؟ بلوچستان آپ کا قرض دار نہیں، حساب کرلیں تو آپ کا ایک ایک بال بلوچستان کا قرض دار ہوگا۔ سوئی گیس کی رائلٹی چھوڑیں، ہمیں سونگھنے کو بھی نہیں ملتی، کشمیر کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، کشمیر ملے گا تو ملے گا، جو آپ کے پاس ہے اس کیلئے تو کچھ کرو، جھنڈا لگانے سے کوئی محب وطن نہیں بن جاتا، یہ مت کہیں خالی خزانہ ورثہ میں ملا، کیا اگلے بجٹ کی ذمہ داری ٹڈی دل، کورونا پر تو نہیں ڈال دیں گے، موجودہ بجٹ میں بلوچستان تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔ بلوچستان کو 10 ارب کا پیکج نہیں بلکہ چھوٹا سا پیکٹ دیا گیاہے، حالیہ بجٹ وزیر اور بیوروکریسی دوست ہوسکتا ہے عوام دوست نہیں، اس ملک میں انصاف ملتا نہیں منڈیوں میں بکتا ہے، حکومت نے وعدے پورے نہیں کیے، لاپتہ افراد کو بازیاب نہ کرایا جاسکا، بلوچستان کو برابر کا حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں مالی سال2020-21کے وفاقی بجٹ پر عام بحث تیسرے روز بھی جاری رہی، اپوزیشن ارکان نے بجٹ پرشدید تنقید کرتے مطالبہ کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخوا ہوں میں 10 تا20 فیصد اضافہ کیا جائے، حکومت بجٹ کا از سر نو جائزہ لے،بجٹ وزراء،حکومتی ارکان اور بیورو کریسی دوست ہوسکتا لیکن عوام دوست نہیں، بجٹ میں عوام کیساتھ مذاق کیا گیا، یہ تاریخ کا بدترین بجٹ خسارہ ہے،بجٹ کو جان بوجھ کر غلط اعدادوشمار اور جھوٹ سے بیان کیا گیا،قوم کے سامنے غلط اعدادوشمار رکھے گئے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی غلط بیانی کی گئی،حکومتی معاشی ٹیم کو قابل احتساب بنانا چاہئے، چینی مافیا نے 150 ارب روپے عوام سے لوٹ لئے کسی کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، حکومت جھوٹ،انا، انتقام اور نااہلی کے رہنما اصولوں پر چل رہی ہے،کورونا کیلئے ایک انجکشن کا نام بتا کر مخصوص لوگوں کو منافع اکٹھا کرنے کا موقع دیا گیا، اسحاق ڈار نے ڈالر کو نہیں انیل مسرت اور چوہدری عمرا ن کو قید کیا ہوا تھا، ڈالر مہنگا کرکے پیسے بنائے گئے، حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے آئی ایم ایف کو ہی گھر لے آئی، حکومت نے سترہ ماہ میں تیرہ ہزار ارب کا قرضہ لیا جبکہ پانچ سال میں دس ہزار ارب کے قرضہ پر اعتراض ہے، جس شرح سے مسلم لیگ(ن) نے ٹیکس ریونیو بڑھایا وہ شرح برقرار رہتی تو ٹیکس ریونیو 5700 ارب تک پہنچ جاتا، سی پیک کے منصوبے بروقت مکمل ہوجاتے تو روزگار اور وسائل میں اضافہ ہوجاتا، بجٹ میں سی پیک جیسے منصوبے کو نظرانداز کیا گیا، منفی بجٹ کے باوجود وزراء اپوزیشن کے سوا لوں کے جواب دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی تعریفیں کرتے ہیں جن کو سن کر شرم آتی ہے، حکومت کو کووڈ19کا سامنا ہے ہمیں 2018 ء کے انتخابات کے بعد کووڈ18کا بھی سامنا ہے، کسی ایسی حکومت کی کمیٹی میں نہیں بیٹھیں گے جس کی سربراہی کشمیر بیچنے والے کریں، ہم نے اپنے ایوانوں کو ہائیڈ پارک کارنر بنادیا جہاں تجاویز تک نہیں لی جاتیں،اگر تجاویز کو حل نہیں کرسکتے تو کم از کم انکو نوٹ تو کرلیں،اگر نوٹ کرنے کیلئے کاغذ اور پنسل نہیں تو ہم چندہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ان خیالات کا اظہار اپوز یشن رہنما رانا ثناء اللہ‘ مولانا اسد محمود‘سردار اختر مینگل، عا ئشہ غوث پاشا، مولانا عبدالاکبر چترالی، خواجہ آصف، ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین، پیپلز پارٹی کے سید حسنین طارق و د یگر نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا،اپوزیشن ارکان اسمبلی کا کہنا تھا حکومت ملک کا وقت برباد، قوم کا مذاق اڑا رہی ہے، قوم بجٹ کے حوالے سے پریشان ہے تاریخ میں اتنی سنجیدہ اپوزیشن حکومت کو نہیں ملی، تاجر اور عوام بجٹ کو مستردکر چکے،آج تک سمجھ نہیں آئی آپ کا وزیراعظم کیا چاہتا ہے کہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو۔ اپوزیشن کے سوالات کے جواب میں حکومت کا ایک ہی جواب ہے ہمیں کورونا کا مسئلہ ہے، عمران اینڈ پارٹی کارکردگی تو دکھاتے، پوری دنیا میں کوئی ملک بتا دیں جس کی جی ڈی پی منفی ہوئی ہے، عمران خان اور ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں، ہندوستان کے وزیراعظم کو اب طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کا عمران خان ہے۔ حکومت کو مدارس کی اصلاح کی بہت فکر ہے، بجٹ میں مدارس میں اصلاحات کے نام پر5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مدارس اپنے تہذ یب و تمدن اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کررہے ہیں مدارس اصلاح کے قلعہ ہیں ان پر نقب لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک سو پچاس ارب وباء کے دوران غریبوں میں تقسیم کرکے احسان جتاتے ہیں۔ اسلام آباد میں پیراسیٹامول کی بھی قلت ہوگئی ہے،افغانستان کی جی ڈی پی بھی پاکستان سے اوپر ہوگئی ہے۔حکومت کا متعلقہ منسٹر این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی سے متعلق وضاحت کرے،کیا این ایف سی ایواڈ پر نظرثانی 18 ویں ترمیم کو رول بیل کرنے کا حصہ ہے، ہمیں لوگوں کی جانوں کیساتھ، اس معیشت کے پہیے کو بھی چلانا ہے،ہمیں آگے اس کورونا کو مدنظر رکھ آگے فیصلے کرنے ہوں گے۔پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ کامران نے کہا کہ لاک ڈاون مسلہ کا حل نہیں، ایس اوپی کیساتھ سب کھولنا ہوگا،سمارٹ لاک ڈاون ہی مسائل کا حل ہے،بلوچستان کیلئے دس ارب کی اضافی گرانٹ دی گئی ہے، کراچی میں کچرا اٹھانے کیلئے پیسہ وفاق دیتا ہے،ہم سے زیادہ سرکاری ملازمین کا کوئی ہمدرد نہیں،مسلم لیگ ن کے دور کے آخر میں تمام ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔وفاقی حکومت نے اپنا بجٹ خسارہ چھپانے کیلئے صوبوں کے بجٹ خسارے کو دکھایا نہیں گیا،بجٹ کو جان بوجھ کر غلط اعدادوشمار اور جھوٹ سے بیان کیا گیا،قوم کے سامنے غلط اعدادوشمار رکھے گئے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی غلط بیانی کی گئی ہے،حکومت کی اکنامک ٹیم کو قابل احتساب بنانا چاہئے،غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کیسے درست کریں گے بجٹ میں نہیں بتایا گیا۔
قومی اسمبلی