پارلیمینٹ کی بے توقیری

پارلیمینٹ کی بے توقیری
پارلیمینٹ کی بے توقیری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات کوئی نئی بات نہیں۔اپنے مخالفین کو بدنام کرنے لئے جھوٹ بولنا صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں۔ 2014ء کے دھرنوں کے آغاز سے لے کر اب تک ایک بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ آزاد سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے قیام کے بعد اس کی اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی کسی پارٹی کو میدان سیاست میں اتر کر اقتدار کے کھیل میں شریک ہونے کی اجازت نہیں۔ اس مقصد کے لئے دیگر کارروائیوں کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ ناپسندیدہ سیاسی شخصیات کی کردار کشی کو ریاستی پالیسی کا لازمی حصہ بنا کر بھرپور طریقے سے اطلاق کرایا جائے۔اس کے لئے نہ صرف مختلف طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں،بلکہ بھاری بجٹ بھی صرف کیا جارہا ہے۔ ابتدا میں اس پالیسی کے ذریعے مخالف سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی نظام کو بھی مزید کمزور اور غیر اہم بنانے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد بھی باربار یہ کہا کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جائے، گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا کرکرکٹ گراونڈ بنائیں۔ وزرا اور سرکاری افسروں سے بڑے گھر خالی کرا لئے جائیں گے۔

بظاہرعوامی طور پر مقبول لگنے والے ان اعلانات کے پیچھے اصل مقصد کہیں بڑا تھا کہ سول حکومت کا ظاہری ڈھانچہ اس قدر لاغر نظر آئے کہ لوگ اس سے مدد مانگنے کی بجائے الٹا اپنے اوپر بوجھ خیال کریں۔پی ٹی آئی حکومت کے دیگر کئی نعروں کی طرح یہ بھی ہوا میں رہ گیا۔ شاید بعد میں منصوبہ سازوں کو یہ ادراک ہوگیا کہ ایسا کرنے  سے عوام کی توجہ ان کی جانب پہلے سے بھی زیادہ مبذول ہوجائے گی۔ یہ معاملہ تو فی الحال رکا ہوا ہے مگر مخالف سیاست دانوں کی کردار کشی پورا زور لگا کر کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی پلاننگ کا حصہ ہے کہ جن سیاست دانوں پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے گی۔ انہیں جواب دینا تو درکنار اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گیا۔ پچھلی حکومت ابھی قائم ہی تھی کہ مخصوص اینکروں و صحافیوں کو بتایا گیا کہ آپ نے الزامات لگا کر حکمرانوں کے پرخچے اڑا دینے ہیں۔ اس ”نیک“ کام کے لئے وقتاً فوقتاً پورے کے پورے میڈیا ہاؤس بھی کھڑے کئے گئے اور کئے  جا رہے ہیں۔اس حوالے سے بھی پوری طرح ٹریننگ دی گئی کہ کس نے کون سا الزام لگانا ہے اور کیسے الفاظ استعمال کرنے ہیں۔ ”محب وطن“ اینکروں کے ساتھ نہایت ہی سطحی قسم کے یو ٹیوبر بھی اس نظام کی زیادتیوں  پر سوال اٹھانے والوں کے خلاف منہ سے آگ برساتے نظر آتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ جن عناصر سے مخالفین کی کردار کشی کرائی جاتی ہے۔ان کی محض زبانیں توپوں کی صورت میں استعمال کی جاتی ہیں۔

گولہ بارود کہیں اور تیار کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کی“ قانونی“ بے عزتی کے لئے عدالتوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے، سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کے گاڈ فادر والے ریمارکس اور جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کے سیسلین مافیا کے القابات اچانک یا بے سبب نہیں تھے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے لوہے کے چنے والے فقرے پر خواجہ سعد رفیق کو باربار بے عزت کرنے کی کوشش کی۔اہم ترین داخلی، خارجی، معاشی امور سے ہٹ کر وزیراعظم عمران خان کی واحد سنجیدہ مصروفیت ترجمانوں کے اجلاسوں کی صدارت کرنا، آگے کے لئے رہنمائی کرنا اور پچھلی پرفارمنس پر شاباش دینا ہے، لیکن اس بات کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ کردار کشی کے لئے بیانات دینے کا معاملہ صرف حکومت تک محدود ہے۔اس حکومت پر کئی احسانات کرنے والی پیپلز پارٹی ان دنوں ایک بار پھر سے تیز و تند بیانات کی زد میں ہے۔ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ خود پیپلز پارٹی بھی دوسروں کے خلاف ریاستی سطح پر گھڑے گئے الزامات لگانے کے دھندے میں ہم قدم ہوتی رہتی ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔یہ تو تھا اصل مسئلہ مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس کا توڑ موجود ہے؟ یقینا ہے، مگر عمل درآمد آسان نہیں۔ رانا ثنا اللہ نے بنی گالہ پر جوابی گولہ باری کی تو ان کی گاڑی سے ہیروئن برآمد کر کے جیل میں بند کردیا گیا۔ حنیف عباسی کو منہ کھولنے کی سزا آدھی رات کو عمر قید سنائے جانے کی صورت میں ملی۔ مفتی کفایت اللہ آج بھی قید میں ہیں۔ کچھ  عدالتوں سے نااہل ہوگئے۔ سیاستدان کے لئے یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ انہیں اس حوالے سے تحفظ حاصل نہیں۔زمینی حقائق، مگر یہ ہیں کہ پوری ریاستی طاقت اور وسائل کے استعمال کے باوجود سوالات اٹھ رہے ہیں۔ منظم اور مربوط ریاستی پراپیگنڈے کے جواب میں عام سوشل میڈیا صارفین کا مختلف واقعات پر اپنی جانب سے دیا جانے والا ردعمل سونامی بن کر چھا جاتا ہے۔ اس لئے نئے راستے بھی ڈھونڈے جارہے ہیں۔

 پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کے لئے جو تازہ ترین ہنگامے کرائے گئے وہ بھی اسی حکمت عملی شاخسانہ ہیں۔ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر  کو ایوان سونپا گیا، جن کے متعلق اپوزیشن کا دعویٰ ہے وہ قانون سازی کے لئے ہونے والی ووٹنگ کے دوران ارکان کی غلط گنتی کرتے ہیں اور کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کے باوجود اجلاس کو جاری رکھتے ہیں۔سو پارلیمنٹ کا تو عملاً کریا کرم ہو چکا۔ ایک طرف حکومت، اپوزیشن پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے تو دوسری جانب خود وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپوزیشن کو فیس نہیں کر سکتے۔اِس لئے ایوان میں نہیں آتے۔2014ء کے دھرنوں کے دوران عمران خان نے اپنے فری سٹائل بیانات اور دھمکیوں سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔دھرنا ختم ہونے کے بعد ایوان میں آئے تو خواجہ آصف نے“ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے“ والی مشہور تقریر کی تو کپتان کا یہ عالم تھا  جیسے منہ میں زبان نہیں۔ باہر آئے تو انتہائی دِل برداشتہ تھے۔ اب تو وہ وزیراعظم ہیں۔ مخالفانہ نعرے کیسے سنیں، اور تو اور اب اپوزیشن والے وزیراعظم کو دیکھ کر مودی کا یار کے طعنے بھی دینے لگے ہیں۔ ان کے حامی بھی یہی کہتے ہوں گے کہ کیا بندہ بے عزتی کرانے کے لئے وزیراعظم بنتا ہے؟اب چونکہ وزیراعظم کے پاس کرنے کو زیادہ کام نہیں، دوستوں نے ذمہ داریاں اس حد تک بانٹی ہوئی ہیں کہ معیشت کی اچانک بہتری کا راز کب افشا کرنا ہے؟یہ چھ ماہ پہلے ہی طے کرلیا تھا۔ سو اب وزیراعظم کو ترجمان اعظم بن کر ترجمان فورس کے ذریعے بھی اپوزیشن کو سبق سکھانا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک اپوزیشن جارحانہ انداز میں جواب نہیں دیتی۔ اپوزیشن جماعتوں کو پیغام دیا جارہا کہ اب پارلیمنٹ میں گھس کر بھی ماریں گے۔ صورتِ حال دھماکہ خیز تو ہو ہی گئی ہے، مگر پیپلز پارٹی، اے این پی اور جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر واضح ہوگیا کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ اور حکمت عملی سو فیصد درست تھی اور ہے۔

مزید :

رائے -کالم -