خوش آمدید خواجہ سلمان رفیق
خواجہ سلمان رفیق سے میری آشنائی بچپن سے ہے ایک تو یہ شہر دار ہیں فروری 1965ء میں سوتر منڈی میں پیدا ہوئے جبکہ میں گروارجن نگر میں جو کہ ان کا حلقہ انتخاب رہا ہے جہاں سے یہ پہلی بار 2008ء میں الیکشن جیت کر پنجاب اسمبلی میں پہنچے اور میں اپنے بزرگ خواجہ پرویز کے ہمراہ ان کو مبارک باد دینے گیا۔ خواجہ پرویز کا شمار ان کے بزرگوں میں بھی ہوتا ہے اس لیے ان سے ملنے کا ایک سلسلہ یہ بھی رہا،انہیں اس و قت وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے شعبہ صحت کے حوالے سے اپنا سپیشل اسسٹنٹ تعینات کر دیا اور خواجہ سلمان پنجاب کے صحت کے معاملات دیکھنے لگے ان کی خوبی دھیما مزاج اور گفتگو میں نفیس لاہوری پن ہے،سخت سے سخت سوال کا جواب مسکراہٹ سے دینا ان کی شہرت کا باعث بنا۔2013ء کے جنرل الیکشن میں ان کو ٹکٹ نہیں ملی کیونکہ حمزہ شہباز قومی اور صوبائی اسمبلی کی شہری نشستوں سے بیک وقت انتخاب لڑرہے تھے اور ان کے چیف سپورٹر خواجہ سلمان رفیق ہی تھے جو ان حلقوں میں مسلم لیگ ن کے معاملات دیکھتے تھے مگر حمزہ شہباز کے قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کے بعد ضمنی الیکشن میں خواجہ سلمان ایک بار پھر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے انہیں کچھ وقت کے لیے پہلے سپیشل اسسٹنٹ برائے امور صحت اور بعد میں صوبائی وزیر صحت مقرر کردیا۔خواجہ سلمان سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن کے معاملات دیکھنے لگے۔
شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کے بعد 2008ء میں مجھے جب ہیلتھ بیٹ دی گئی تو خواجہ سلمان سے پریس کانفرنسوں اور دیگر ایونٹس پر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ مختلف چینلز کے لیے ان کی گفتگو ریکارڈ کرکے اس کو رپورٹ کو حصہ بنایا مگر جب میں نے 2014 ء میں ریڈیو کو جوائن کیا تو دیگر سیاستدانوں کی طرح خواجہ سلمان نے حامی بھرنے کے باوجود انٹرویو کے لیے وقت نہیں دیا۔صحافت کے جدید دور میں آواز کی نسبت تصویر یا ویڈیو کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور ان کی ترجیح بھی الیکٹرانک میڈیا کی ویڈیو ہے لیکن اس بات سے قطع نظر میں پھر بھی ان کی آواز کو ریڈیو رپورٹس میں استعمال کرتا رہا کیونکہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں ان کا صحت کے حوالے سے ویژن زیادہ بہتر ہے اور دوسری بات کہ اگر ان کا مخالف کوئی اچھا کام کردے توو ہ اسے بھی سراہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ کام عوام کی فلاح بہبود کے حوالے سے اہم تھاجس کو سرانجام دیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں جب چلڈرن ہسپتال میں آگ لگی تو خواجہ سلمان فوری طور پر وہاں پہنچے اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر امدادی کام کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ احکامات بھی جاری کرتے رہے جو ان کی اپنے کام کے ساتھ دلچسپی کا ثبوت ہے مگر خواجہ صاحب! ابھی بھی لاہور سمیت صوبے بھر کے کروڑوں لوگوں کو صحت کی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔زیادہ دور نہ جائیں بند روڈ پر میاں منشی ہسپتال موجود ہے جس کا ٹراما سنٹر 2016 ء سے زیر تعمیر ہے،اس کا افتتاح آپ کے دور میں ہوا اور اس کو بہت عرصہ قبل تعمیر ہو جانا چاہیے تھا مگر ابھی تک یہ زیر تعمیر ہے کیونکہ آپ کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا کیونکہ ان کی ساری توجہ گنگارام ہسپتال کے ماں بچہ پروگرام پر تھی۔ خواجہ سلمان رفیق آپ کو اندازہ ہے کہ میاں منشی ہسپتال کہاں واقع ہے اور اس کے اردگرد وہ لوگ رہائش پزیر ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں،ان کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سینٹری کا اچھا نظام ہے، وہ اس دور کے لاہور میں رہائش پذیر ہیں جس کو آپ نے 50 سال قبل دیکھا تھا اور یہاں پر ہیضہ،اسہال،ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے۔بند روڈ کی تیز ترین ٹریفک کی وجہ سے ہونے والے حادثات کے نتیجے میں زخمی ہونے والے سب سے پہلے میاں منشی ہسپتال ہی بھیجے جاتے ہیں لیکن سی ٹی سکین کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو میو ہسپتال ریفر کردیا جاتا ہے۔ آپ سوچیں اگر ٹراما سینٹر کا پراجیکٹ مقررہ وقت پر مکمل ہوجاتا تو اس میں سی ٹی سکین کی مشین بھی لگنی تھی جس نے عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا یہ سینٹر ابھی تک التواء میں ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی بڑی تعدادکو دوسرے ہسپتالوں میں ریفر کر دیا جاتا ہے جہاں پر نہ ختم ہونے والا رش پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مجھے تھوڑی سی تحقیق کرنا پڑی تو پتہ چلا کہ اس پراجیکٹ کے 16 کروڑ کے فنڈز کو منجمد کر کے رکھا ہوا ہے۔اب اس پراجیکٹ کے لیے کم و بیش اتنی ہی مزید رقم حکومت کو رکھنا پڑے گی تو یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ کر عوام کی فلاح بہود کے حوالے سے خدمات شروع کرے گا۔اس کے ساتھ لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں جن میں میو،جناح، سروسز، جنرل اور گنگا رام ہیں،وہاں پر ریڈیالوجی سنٹرز کام کررہے ہیں جن میں اینجیو گرافی اور سی ٹی سکین کی جدید مشینیں نصب ہیں مگر دل کی سی ٹی اینجیو صرف کارڈیالوجی میں ہی ممکن ہے جہاں کا رش دیکھ کر مریضوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔اس طرف بھی توجہ کی جانی ضروری ہے اور صوبے کے بڑے ہسپتالوں میں کارڈک سی ٹی اینجیو کو فعال کیا جانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ ایڈہاک اور کنٹریکٹ ڈاکٹرز جن میں سینئر رجسٹراز سے لے کر پروفیسرز تک کے لوگ موجود ہیں، ان کے تجربے میں ایڈہاک دور کی ملازمت کو بھی شمار کیاجا نا ضروری سمجھا جائے تاکہ یہ لوگ فکر معاش سے بے خبر ہوکر عوام کی خدمت کرسکیں۔