اتحاد کی صبوحی نوش کرنے سے قبل

   اتحاد کی صبوحی نوش کرنے سے قبل
   اتحاد کی صبوحی نوش کرنے سے قبل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پاکستانی سیاست کی تہہ میں تلخی اور انتقام کی سیاہی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بے شبہ بازارِ سیاست کو گرمی اور رنگا رنگی ان باتوں ہی سے ملتی ہے مگر جب یہ بازار مقتل گاہ کا روپ دھار لے تو معاملات بھیانک ہو جاتے ہیں۔ اہلِ سیاست انتقام کے سفینوں پر سوار ، خون ریز آنکھوں اور تیغِ براں کی طرح چمکتی زبان اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ سیاست کے سمندر کا سینہ چاک کر رہے ہیں۔ یہ سینہ تبھی تک اور اسی حد تک چاک ہوتا جس حد تک سفینہ ہوتا ہے۔ اس کے گزر جانے کے بعد اتنی ہی تیزی سے سل بھی جاتا ہے۔ اس دکانِ شیشہ گری میں موجود لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست کے ایوان میں نہ تو کوئی تاحیات دوست ہوتا اور نہ ہی دشمن۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوست اور دشمن داریاں بدلتی رہتی ہیں۔ دور کیوں جائیے، پاکستان میں 1996ءکی دہائی میں سیاست پارے کی مانند مچل رہی تھی۔ ایک افراتفری کا عالم تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سیاست کے تخت پر براجمان تھیں،اس دور میں سیاسی انتقام کا عنصر اس حد تک ابھر آیا تھا کہ الامان الخدر۔ مخالفین پر مقدمات کے انبار لگائے جا رہے تھے۔ شریف خاندان کی کئی سرکردہ اور نو عمر شخصیات تک پولیس کی حراست میں لی گئیں۔ میاں نواز شریف جو اس وقت قائد حزب اختلاف تھے ان پر غداری کا مقدمہ درج کروایا گیا۔ میاں شہباز شریف کو ایف آئی اے نے حراست میں لینے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ، ایف آئی کے افسر نے نہ صرف انھیں دھکے دیئے بلکہ بدکلامی بھی کی۔ 

بعد ازاں،جو صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے ساتھ ہوا وہ ستم اس سے کئی گنا بڑھ کر تھا۔ 1999ءمیں جب یہ خبر اخبارات میں چھپی کہ زرداری صاحب نے خود کشی کی کوشش کی ہے لیکن نواز حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ مشاہد حسین سید نے اسے ڈھونگ اور ڈرامہ قرار دیا۔ زرداری صاحب کو حراست میں لئے جانے کے بعد کون سا ظلم تھا جو ان پر روا نہیں رکھا گیا۔ انہیں مصلوب کیا گیا، زبان کو زخمی کیا گیا، جب وہ درد سے بلبلا اُٹھے، زندگی ان کو مشکل تر لگنے لگی، جنگ آزمائی اور ملامت گروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے تو انہیں محسوس ہوا کہ اس دنیا میں سوائے موت کی آغوش کے انہیں کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ 1996ءمیں بے نظیر حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی پولیس نے زرداری صاحب کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان پر مقدمات کے ڈھیر لگائے گئے جن کی سماعت لمبے عرصے تک ملتوی رہی۔ جسٹس نظام احمد کیس میں ان کی ضمانت ہو جانے کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا بلکہ حراست میں ہی رکھنے پر اکتفا کیاگیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے زرداری صاحب کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشںِ نظر آغا خان ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایات جاری کیں تو اس وقت نواز حکومت نے ان ہدایات کو در خور اعتنا تک نہ جانا۔ گورنر سندھ نے ان کی ہسپتال منتقلی پر حکومت وقت کی توجہ دلانا چاہی۔ لیکن، مرکز پر سکوتِ مرگ طاری رہا۔ وہاں سے کوئی نامہ اور نامہ بر نہ آیا۔ گورنر سندھ نقار خانہ سیاست میں طوطی کی مانند بولتے ہی رہ گئے۔ طوطیوں کی آواز سیاست کے نقار خانوں میں بھلا سنی ہی کب گئی ہے! 

دونوں جماعتوں میں یہ دوریاں مشرف دور کے اختتام میں کچھ سمٹیں لیکن کڑواہٹ کے رنگ اس اتحادی فضاءمیں تحلیل نہ ہو سکے،بلکہ 2011ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں بعدالطرفین بہت واضح تھا۔ اس دور میں مسلم لیگ نواز، عمران خان کو صدر زرداری کا خفیہ ہتھیار کہتی تھی۔ ان بیانات میں عمران خان کے عظیم الشان قسم کے بانکے سجیلے جلسے کے بعد زیادہ تیزی آئی۔ اسی سال جب نومیر کے مہینے میں میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا جس میں ’زرداری لیگ‘ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے مائیک مولن سے ساز باز کر کے پاکستان کی سلامتی کو داو_¿ پر لگانے، نیوکلیئر ہتھیار اس کی تحویل میں دینے اور آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کی سرپرستی میں لانے کی پیش کش کی ہے۔ نیز یہ بھی کہا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد جرنیلوں کے مزاج میں غراہٹ محسوس ہو رہی ہے جو صدارت کے سنگھاسن کو لرزہ براندام کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ نواز تو اسے لے اڑی۔ نواز شریف صاحب نے فیصل آباد میں موجود دھوبی گھاٹ گراو_¿نڈ میں جلسے میں تقریر کرتے ہوئے گرج کر کہا کہ زرداری نے ملک کی سالمیت کو داو_¿ پر لگا دیا ہے۔ اور یہ کہ انہوں نے ان کی سی ڈھیٹ اور کرپٹ حکومت زندگی بھر نہیں دیکھی۔ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ میمو سازش کا محرک اونچے ایوانوں میں بیٹھا ہوا شخص ہے۔

 آج وہ اسی شخص اور جماعت کے ساتھ مل کر حکومت کر رہے ہیں۔ دونوںایک دوسرے کی بلائیں لیتے نہیں تھک رہے۔ ایک دوسرے کے اقدامات کی توثیق کر رہے ہیں۔دشمنی کی فضاءیکسر غائب ہے۔ دونوں اتحادی ایک دوسرے کو محبت کے زم زم پیش کر رہے ہیں۔اب تو یوں گمان ہونے لگا ہے کہ دونوں جماعتیں ، سیاست کی ناقہ پر سوار ہو کر طویل مسافتیں طے کرنے کا تہیہ کر چکی ہیں۔ان کی یہ ناقہء سیاست حکومتی پارٹیوں کے لئے خوفناک ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ یہ ناقہ بہت چھریری، پھرتیلی، چونچال، صبح و شام رواں دواں، جما کر پاﺅں رکھنے والی، تنو مند، بڑے کلے ٹھلے کی، شتر مرغ کی طرح تیز گام، لمبے لمبے ڈگ بھرنے والی، بلند و بالا ہے۔ اس کے کان بہت تیز اور نوکیلے ہیں۔ دِل کی پکی ہے۔ اس ناقہء سیاست کی ناک میں سنہری نکیل عجب بہار دے رہی ہے جو اس کی عمدگیءنسل کی غمازی کر رہی ہے۔ 

اتحادی جماعتوں کے لالہ رخ کو جو کارواں آج نظر آ رہا ہے، عہدِ گل کی جو داستان آج رقم ہو رہی ہے، جس ناقہ پر سوار ہو کر یہ ریگستان و نخلستان میں صحرا نوردی کر رہے ہیں یہ کل تک ستم کی داستان تھی۔دونوں ایک دوسرے کے چہروں پر الزامات کی قبائیں پھینکتے تھے۔ آج دونوں اتحادی ہیں۔ اس تمام سے یہی جاننے کو ملتا ہے کہ سیاست میں سوائے سیاست کے د وست یا دشمن داری کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے اقتدار کے دوران مخالفین کے ساتھ انتقام کی اس لکیر تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے کہ کل ایک ساتھ بیٹھتے وقت احساس ندامت کے بوجھ تلے دبے ہی رہ جائیں اور ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے وقت آنکھوں میں شرمندگی کی گھٹا امڈ آئے۔یہ وقت ہوش اور دانش مندی کا متقاضی ہے۔ کوئی تاحیات نہ تو پابندِ سلاسل رہا ہے، نہ رہ سکتا ہے۔ اس لئے تلخیوں کو جلد از جلد ختم کر کے سیاسی عمل کو بحال کیا جانا چاہیے۔ کیا معلوم کل کلاں پاکستان تحریک انصاف موجودہ پارٹیوں میں سے کسی ایک جماعت کے ساتھ مل کر حکومت میں ہو اور اپنے مخالفین کو اس سے زیادہ شدت کے ساتھ پسِ دیواِ زنداں کر رہی ہو، مگر اس رویے کو نہ تو سیاست کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -