تیرا کیا ہوگا کالیا ؟
اردو زبان کے کالم نگار حضرات اگر بین الاقوامی مسائل پر قلم اٹھانا چاہیں تو ان کی جانِ مجنوں کو دوگونہ عذاب کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ ان موضوعات کی تاریخ اور جغرافیہ ایک اوسط فہم وفراست کے پاکستانی قاری کی تفہیم میں نہیں آتے اور جو قلیل التعداد طبقہ ان کو سمجھنے کا کچھ شعور رکھتا ہے اس کے لئے انگریزی زبان، بمقابلہ اردو کے، آسان ہوتی ہے۔اگر ایسا ہو تو پھر وہ قلیل التعداد طبقہ، اردو میں لکھ کر اپنے منہ کا ذائقہ کیوں خراب کرے۔ انگلش چونکہ بین الاقوامی زبان ہے اور اردو (یا ہندی) کو ابھی اقوام متحدہ کی معروف زبانوں میں شامل نہیں کیا جاسکا اس لئے مارکیٹ میں نہ تو سٹرٹیجک موضوعات پر کوئی ایسی لغت موجود ہے جو لکھنے والے اور پھر پڑھنے والے کی مدد کرسکے اور نہ ہی وہ سکہ بند مترادفات اردو زبان میں مستعمل ہوسکے ہیں، جن سے تفہیم مطالب میں کوئی آسانی ہو۔ یہ کام اگرچہ مشکل ضرور ہے لیکن انگریزی زبان سے گہرا شغف رکھنے والے اردو کے کالم نگار حضرات اگر اس طرف توجہ فرمائیں تو تکرار استعمال سے یہ منزل سرکی جاسکتی ہے۔
اردو زبان کے اخباروں میں ”فارن نیوز“ کا حصہ ابھی کم ہے (اور بہت ہی کم ہے ) نتیجہ یہ ہے کہ اردو پریس، ایک قسم کا لوکل پریس بن کے رہ گیا ہے۔ اسے بین الاقوامی پریس ہونے میں دیر لگے گی۔ اگر آج کوئی اردو اخبار گلوبل موضوعات پر خبروں کا آدھا صفحہ مختص کردے اور باقی آدھا کسی کالم کے ترجمے پر وقف کردے تو یہ ایک بڑی عوامی خدمت ہوگی۔ البتہ اس صفحے کو ایڈٹ کرنے والے کی اپنی کوالی فیکیشن (A+) ہونی چاہئے۔ اردو زبان کا کوئی بھی قومی سطح کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں بین الاقوامی خبروں اور مو ضوعات پر کالموں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ جو قارئین مقامی سطح سے اٹھ کر بین الاقوامی سطح کی خبروں کی جستجو کرتے ہیں، ان کو ناچار انگریزی پریس کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یادش بخیر بعض اردو اخبارات میں ( جن میں روزنامہ پاکستان بھی شامل تھا) ایک عرصے تک ایک پورا صفحہ اس”کارخیر“ کے لئے مختص کیا ہوا تھا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ اس صفحے میں انگریزی زبان کے کالم اور خبریں وغیرہ جوں کی توں اٹھا کر شائع کردی جاتی تھیں....
یہ نسخہ اس مرض کا علاج ہرگز نہیں تھا کہ جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ قاری کو پھر بھی انگریزی اخبار کی ضرورت پڑتی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا تھا !
اس مشکل کا دوسرا حل یہ ہو سکتاہے کہ اردو اخبار کے کوئی دوتین مستقل مترجم حضرات ایسے ہوں جو انگریزی پریس (فارن پریس ) کو روزانہ کی بنیاد پر چھان (Glean)کر کوئی ایسا کالم کہ جس کے مندرجات میں پاکستان کا بھی کوئی براہ راست یا بالواسطہ ذکر ہو اور نفسِ موضوع کا اثر، پاکستانی سیاست یا ثقافت یا معیشت پر پڑے تو اس کو اردو میں ترجمہ کرکے اخبار میں چھاپ دیا جائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف بین الاقوامی مسائل کی کچھ نہ کچھ تفہیم قارئین کو مل جائے گی بلکہ ان انگریزی اصطلاحات وتراکیب ومحاورات وغیرہ کے تراجم سے بھی آگاہی مل جائے گی جو بادی النظر میں اردو دان طبقے کی گرفت میں نہیں آتے.... میں ایک مثال کے ذریعے یہ نکتہ واضح کرنا چاہوں گا۔
آج کل بین الاقوامی سیاسیات میں ایک بار پھر سرد جنگ کا بازار گرم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف امریکہ ہے ....یہ دونوں جنگ عظیم دوم کے فاتح کہلانے کے بعد اگست 1945ءسے ایک دوسرے کے حریف بن چکے ہیں۔ ان کے اختلافات کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کو بھی کسی نہ کسی حوالے اور کسی نہ کسی پیمانے پر خواہی نخواہی ان دونوں حریفوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو ان کے مسائل کے ساتھ ہمارے اپنے پاکستانی مسائل اور ان کے حل کی کڑیاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔
گزشتہ 70,65 برسوں میں ( 1945ءسے آج تک ) بین الاقوامی مراکزِ قوت کے افق پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں جن میں بعض کے ہم محض تماشائی بنے ہوئے ہیں اور بعض نے ہم پر براہ راست ( یا بالواسطہ) کچھ نہ کچھ اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ ایک اوسط فہم والے پاکستانی شہری کو بھی بین الاقوامی قوت کے ان دو بلاکوں کا کچھ نہ کچھ شعور ہونا چاہیے۔ اس شعور کو عوام تک منتقل کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسی لئے میں عرض کررہا تھا کہ اگر کوئی کالم نگار، اردو زبان میں ان بین الاقوامی مسائل و موضوعات کو ترجمہ کردے تو قارئین کی فہم وفراست کا کینوس وسیع تر ہوسکتا ہے۔
میرے کئی دوست جب یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو اپنے ہی مسائل سے فرصت نہیں ملتی تو وہ عالمی مسائل اور بین الاقوامی موضوعات کو جان کر یا پڑھ کر کیا کرلیں گے تو میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ آج کا لکھا پڑھا انسان خبروں اور خبروں پر تبصروں کا بھوکا ہے۔ اور یہ خبریں اور یہ تبصرے صرف اور صرف مقامی یا ملکی نہیں ہونے چاہیں۔ اگر دنیا ایک گاﺅں بن چکی ہے تو امریکہ، یورپ ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکہ بھی گویا اسی گاﺅں کے ”محلے “ہیںجن میں، ہمیں گاہے بگاہے ”پھیرا“ مارتے رہنا چاہئے....میں اسی ”پھیرے “ کا ذکر کررہا ہوں۔
سردجنگ کے زمانے کی دو سپر پاورز ایک بار پھر جس مسئلے پر سینگ اڑا رہی ہیں ان میں کریمیا اور یوکرائن کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ عام پاکستانی شہری سے پوچھ کر دیکھیں تو وہ ان ممالک کے نام بھی شائد پوری طرح سے ادا نہ کرسکے چہ جائیکہ وہ ان پر کسی دوررس یا سٹرٹیجک زاویہ نظر سے بات کرے۔ اس شہری کے سامنے اردو پریس میں جہاں کہیں ان دو ملکوں کا نام لے کر کچھ خبریں اس کے سامنے آئیں گی ، وہ ان سے نظر پھیر کر آگے بڑھ جائے گا۔
کالم کی ایک اور دائمی معذوری اس کی Spaceکی تنگ دامنی بھی ہے۔ ایک محدود Spaceمیں کسی بڑے مسئلے کے حسن وقبح اور نشیب وفراز پر بحث کرنا بجائے خود ایک بڑا چیلنج ہے بنابرایں کالم نگار وہی زبان اور وہی روزمرہ استعمال کرتا ہے جو گلوبل زبان اور گلوبل روزمرہ کہلاتا ہے۔ اس کالم نگار کی معذوری یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی اصطلاحات وتراکیب کو (انگریزی زبان میں بھی) آسان کرکے پیش نہیں کرسکتا، اردو کا تو ذکر ہی کیا۔
میرے سامنے آج (16مارچ 2014 ) کے روزنامہ ڈان لاہور میں شائع ہونے والا ایک کالم کھلا پڑا ہے جس کا عنوان ہے۔ Chicken a, la Kiev
اس عنوان میں Chicken اور kievکی سمجھ تو آتی ہے کہ اول الذکر کا معنی ہے ”چوزہ “ اور موخرالذکر یوکرائن کے دارالحکومت کا نام ہے۔ اردو میں اس شہر کو ”خیوا“ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن چوزے او ر خیوے کا باہمی تعلق کیا ہے اس کی سمجھ عام پاکستانی قاری کو نہیں
اب اسی اس کالم کا پہلا پیراگراف بھی ملاحظہ کیجئے ۔ جویوں ہے :
The most renowned culinary offering named for Ukraine's fair capital is probably not being consumed extensively in kiev as Ukraine faces the loss of Crimea and possibly other eastern parts of the country. But the "heroes' of Kiev's Maidan Square, egged on by their Western patrons, probably brought this fate on themselves by playing chicken with Russian bear.
اس کالم کو اردوزبان میں ”ڈی کوڈ“ کرنے کے لئے درج ذیل مشکل الفاظ و محاورات کے معانی کسی ڈکشنری میں تلاش کرنے پڑیں گے :
1. Culinary
2. Maidan Squane
3. Egg on
4. Play Chicken
5. Russian Bear
اس آرٹیکل کے کالم نگار جناب منیر اکرم ایک بڑی مدت تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اگر وہ اس کالم کو اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں پڑھتے تو تقریباً 100فی صد سامعین اس کو سمجھ جاتے۔ لیکن پاکستان میں ان کی اس تحریر کو سمجھنے والے شائد 5فی صد بھی نہ ہوں۔
یہی وہ مشکل ہے جس کی طرف میں نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے کہ کسی بین الاقوامی مشکل موضوع کو اردو پریس میں ”قابل ہضم “ بنانے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ منیراکرم صاحب کا کالم بڑا معلوماتی ہے لیکن ایک عام اوسط فہم کے پاکستانی کے لئے قابل فہم نہیں۔ اگر انہوں نے یہ کالم اپنے جیسے سفارتکار حضرات یا وزارت خارجہ کے افسروں یا یونیورسٹی میں امور خارجہ کے پروفیسر حضرات کے لئے لکھا ہے تو پھر ٹھیک ہے .... لیکن پھر ہم جیسے لوگ اپنے آپ سے سوال کریں گے۔ ” اوکالیا !تیرا کیا بنے گا ؟“
اردو پریس کے مالکان حضرات سے گزار ش ہے کہ وہ اس مشکل کا حل نکالیں اور قارئین کے معلوماتی افق کو وسیع کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔