خواتین یونیورسٹی ملتان اور وزیر اعلیٰ کی نظرِ کرم
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا تعلیم کے لئے وژن بالکل واضح ہے۔ وہ صوبے میں تعلیمی اداروں کے قیام اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کی خاطر ماضی میں بھی بہت کچھ کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ مجھے کل خواتین یونیورسٹی ملتان جانے کا موقع ملا۔ میرا مقصد تو وائس چانسلر ڈاکٹر شاہدہ حسنین کو اپنا نیا شعری مجموعہ ”تیری یاد کا سمندر“ پیش کرنا تھا۔ کیونکہ وہ ایک اعلیٰ منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا ذوق بھی رکھتی ہیں اور خود بھی شعر کہتی ہیں، باتوں ہی باتوں میں خواتین یونیورسٹی کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی تو یہ عقدہ کھلا کہ یہ یونیورسٹی ملتان کے سب سے بڑے گرلز کالج کی عمارت میں قائم تو کر دی گئی، لیکن اس کے لئے حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے جو مدد اور مالی اعانت درکار تھی، اُس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے یہ تعلیمی ادارہ جسے یہاں کے لوگوں خصوصاً طالبات کے لئے علمی تشنگی بجھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہونا چاہئے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔
خواتین یونیورسٹی ملتان یہاں کی طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس کی خصوصی طور پر منظوری دی تا کہ معاشرتی پسماندگی اور مخلوط ایجوکیشن کی وجہ سے جو طالبات یونیورسٹی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، اُنہیں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سرچ کمیٹی نے اس نوزائیدہ یونیورسٹی کے لئے جس شخصیت کا بطور وائس چانسلر انتخاب کیا، وہ ایک خاتون ہیں اور ریسرچ کی تعلیم کے حوالے سے ملک و بیرون ملک پہچانی جاتی ہیں۔ میری مراد وائس چانسلر ڈاکٹر شاہدہ حسنین سے ہے۔ وہ پنجاب یونورسٹی سے 1975ءمیں منسلک ہوئیں اور شعبہ بیالوجی میں ان کی خدمات بہت گراں قدر ہیں۔ وہ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی پروگرام کی 8 سال تک چیئرپرسن بھی رہیں اور اس حوالے سے اُن کا تجربہ پاکستان کے چند گنے چنے پروفیسر صاحبان جیسا ہے، جو اپنے شعبے میں ایک اتھارٹی رکھتے ہیں۔ اُنہیں فروری 2013ءمیں یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔ اُس وقت یونیورسٹی کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔انہوں نے آکر اس کی ابتدائی کارروائی مکمل کی، اسے آغاز کے قابل بنایا، کیونکہ حکومت پنجاب نے اس گورنمنٹ کالج برائے خواتین ملتان کی عمارت میں قائم کردیا تھا، اس لئے کالج اور یونیورسٹی کے درمیان ابتدائی مرحلے پر کچھ کشیدگی بھی پیدا ہوئی، مگر ڈاکٹر شاہدہ حسنین کی انتظامی صلاحیتوں اور محنت کے باعث یہ تمام مراحل طے ہوتے چلے گئے۔آج صورت حال بہت بہتر ہے۔مختلف شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام جاری ہیں۔
ڈاکٹر شاہدہ حسنین نے بتایا کہ یہ یونیورسٹی تین مراحل میں مکمل ہوگی۔اس کے پہلے مرحلے میں انفراسٹرکچر اور فیکلٹی کو مکمل اور بہتر بنایا جا رہا ہے۔مختلف شعبوں میں تحقیق کی سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں۔نئے شعبوں کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے،خصوصاً یونیورسٹی فیکلٹی کی بہتری اور ان کے استعدادِ کار بڑھانے کے لئے انہیں ریسرچ کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ کیمپس چونکہ بہت چھوٹا ہے، اس لئے سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ڈاکٹر شاہدہ حسنین کو شکوہ اس بات کا ہے کہ انہیں مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کئے جا رہے، جس کے باعث جس تیزی کے ساتھ وہ اس درسگاہ کو آگے لے جانا چاہتی ہیں، لے جا نہیں پا رہیں۔ڈاکٹر شاہدہ حسنین نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ جب اس یونیورسٹی کا پی سی ون منظور ہو رہا تھا تو ملک کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تھے۔انہوں نے نجانے کیوں مطلوبہ رقوم مختص نہیں کیں، حالانکہ ان کا تعلق ملتان سے تھا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ جنوبی پنجاب میں خواتین کی پہلی یونیورسٹی ہے۔اس حصے میں اس سے پہلے صرف دو یونیورسٹیاں تھیں، ایک بہاﺅ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان اور دوسری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، یہ دونوں یونیورسٹیاں شریف برادران کے اقتدار میں آنے سے پہلے قائم ہوئیں۔اسی لئے ان پر ایک قرض تھا کہ وہ بھی اس خطے میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کریں۔شہبازشریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس پہلو پر توجہ دی۔خواتین یونیورسٹی ملتان کے ساتھ ساتھ بہاولپور میں بھی خواتین یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا۔اس طرح ڈیرہ غازی خان میں میڈیکل کالج کے قیام ،ملتان میں انجینئرنگ کالج اور زرعی کالج کی منظوری انہی کے دور میں ہوئی۔اس حوالے سے وزیراعلیٰ شہبازشریف یقینا بخل سے کام نہیں لے رہے ہوں گے، تاہم چونکہ راستے میں بہت سے سرخ فیتے حائل ہوتے ہیں، اس لئے امکان یہ ہے کہ خواتین یونیورسٹی ملتان کے لئے بجٹ کی منظوری میں کچھ رکاوٹیں وزیراعلیٰ کے علم میں لائے بغیر حائل رکھی جا رہی ہیں۔مَیں اس کالم کے ذریعے وزیراعلیٰ کی توجہ اس معاملے کی طرف دلانا چاہتا ہوں، اگر انہوں نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے تو پھر اسے پایہ ءتکمیل تک پہنچانے کے لئے بھی انہیں اپنی نظرِ عنائت جاری رکھنی چاہیے۔
خواتین یونیورسٹی ملتان کا سب سے اہم مسئلہ اس کا اپنا کیمپس ہے، جس کے لئے ضلعی انتظامیہ نے متی تل روڈ پر 27ایکڑ اراضی مختص کی ہے۔ڈاکٹر شاہدہ حسنین نے بتایا کہ جس قسم کا یونیورسٹی نے انفراسٹرکچر فراہم کرنا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اراضی انتہائی کم ہے،کیونکہ یونیورسٹی کے دوسرے اور تیسرے فیز میں یہاں میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، کالج آف نرسنگ اور آئی ٹی کے شعبے کھولے جائیں گے۔ان اداروں کے لئے یہ زمین نہایت ناکافی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے لئے مختص اراضی کے ساتھ پنجاب حکومت کی 73 ایکڑ مزید اراضی موجود ہے۔اس کے بارے میں ایک تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ یہاں ڈسٹرکٹ جیل منتقل کی جائے، جس کی وائس چانسلر نے مخالفت کی، کیونکہ یونیورسٹی کے ساتھ جیل کی موجودگی لگا نہیں کھاتی۔انہوں نے مجھے کہا کہ مَیں اپنے کالم کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی توجہ اس جانب مبذول کراﺅں اور یہ 73ایکڑز اراضی بھی خواتین یونیورسٹی کو منتقل کرنے کی استدعا کروں، تاکہ ایک عظیم منصوبہ آنے والی کئی صدیوں تک یہاں کی طالبات کے لئے تعلیم کی ضروریات پوری کرسکے۔مَیں نہیں سمجھتا کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کسی اور ادارے کو تعلیمی ادارے پر ترجیح دیں گے، کیونکہ وہ ہمیشہ تعلیم کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں اور خاص طور پر طالبات کی تعلیم کے لئے ان کی کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ملتان کا ان پر بہت حق ہے کہ اس شہر نے ہمیشہ انہیں محبت اور خلوص سے نوازا ہے۔ویسے بھی جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ ان کا فرض ہے اور اگر خواتین یونیورسٹی کے معاملات کو وہ بہتری کی طرف گامزن کردیتے ہیں تو یہ ان محرومیوں کے ازالے کی طرف ان کا ایک اہم اور مثبت قدم ہوگا۔