قتل کیس، ملز م رینجرز اہلکار کی درخوا ست پر فیصلہ محفوظ

قتل کیس، ملز م رینجرز اہلکار کی درخوا ست پر فیصلہ محفوظ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ نے ذیشان الدین قتل کیس میں دوسری ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف ملزم رینجرز اہلکار نور رحم کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس غلام سرور کورائی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔درخواست گزار رینجرز اہلکار نور رحم کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ واقعہ قتل بالخطاءاس لیے مقتول کی اہلیہ شافعہ کی مدعیت میں ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے ۔سیشن جج کو اختیار نہیں کہ وہ براہ راست ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے ۔رینجرز ایک سیکورٹی ادارہ ہے اور کراچی میں لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کررہا ہے ۔اگر ایسے واقعات کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جائے گا تو سیکورٹی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے غیر محفوظ سمجھے جائیں گے ۔دوران سماعت تفتیشی آفیسر کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے تفتیشی آفیسر رفاقت بٹ کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک گھٹنے میں طلب کیا ۔دوران سماعت عدالت نے کیس کی تفتیش میں پولیس کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ایک مہینے میں کیس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی ۔ عدالت کے نوٹس جاری کرنے کے باوجود بھی تفتیشی آفیسر پیش نہیں ہوا ۔فاضل جج کے حکم پر تفتیشی آفیسر عدالت میں پیش ہوا بھی تو چالان کی کاپی نہیں لایا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے ۔دوران سماعت مقتول ذیشان الدین کے وکیل عامر چوہان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقتول کی اہلیہ شافعہ کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں دفعہ 319قتل بالخطاءکی دفعات شامل نہیں ہیں ۔شافعہ نے ذیشان کو فون کرکے اس مخصوص جگہ پر بلایا جس کا کال ریکارڈ بھی موجود ہے ۔رینجرز کا یہ موقف بالکل درست نہیں کہ ملزم رینجرز اہلکار نور رحم نے مسجد کی چھت سے مقتول ذیشان الدین کو زخمی کرنے کے لیے فائرنگ کی ۔مقتول ذیشان کے جسم پر رینجرز اہلکار کے تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں ۔عدالتوں نے متعدد کیسوں میں ایک سے زائد ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے ۔پولیس اگر سنجیدگی سے معاملے کی تفتیش کرے تو مسجد اور عمارت میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈی آئی جی رینک کے افسر کی نگرانی میں اس کیس کی تفتیش کی جاسکتی ہے ۔اس پر مقتول کے وکیل نے ڈی آئی جی ثناءاللہ عباسی اور ڈی آئی جی خواجہ نوید کے نام تجویز کیے ۔عدالت نے مقدمے میں دوسری ایف آئی آرپر دونوں وکلاءکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ۔

مزید :

علاقائی -