ستم ظریفی
کسی بھی ملک کے عوام جب خارجہ، دفاع، معیشت اور داخلہ کے شعبوں میں مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے جذبہ حب الوطنی کی تسکین کے لئے اور وقتی ہی سہی خوشی کے لئے کھیلوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں لیکن ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیں یہاں بھی جائے پناہ نہیں ملتی ہم نے اڑسٹھ سالوں میں بدنیتی، بدانتظامی اور ابن الوقتی کے باعث باقی شعبوں میں تو کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا اور آج ملک چلانا مشکل نظر آتا ہے۔ معیشت غیر ملکی امداد پر زندہ ہے۔ ملک داخلی طور پر صوبائیت، مہاجر، سندھی، مقامی غیر مقامی، شیعہ، سنی، عوام اور اشرافیہ فوج اور سیاست دان غرض ہر شعبے میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزررہا ہے، ہم آج اپنے ملک میں محفوظ نہیں۔ ایسے میں بم دھماکوں، اغواء برائے تاوان، بجلی کی قیمت میں اضافہ اور خودکشیوں کی خبروں سے اکتائے عوام کھیلوں میں پناہ لیتے ہیں اور وقتی طور پر اپنا غم بھول جاتے ہیں لیکن اب کھیل بھی اس بربادی اور تنزلی سے محفوظ نہیں رہا۔ ہاکی کو قومی کھیل ہونے کی سزا ملی اور پنپنے نہ دیا گیا کیونکہ قومی کھیل ہاکی نہیں بلکہ رسہ کشی ہونا چاہیے لیکن افسوس رسہ گیروں کے پاس کھیلوں کے لئے وقت نہیں۔ سکوائش کا کھیل جہانگیر خان اور جان شیر خان کے بعد ختم ہوگیا اب آجاکر کرکٹ بچی ہے جو چاروں صوبوں میں، ہر زبان میں اور ہر فرقے میں یکساں مقبول ہوکر قومی یکجہتی کا باعث بن گئی اور آپس کی نفرتیں بھول کر لوگ پاکستانی ٹیم کے لئے اکٹھے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ فلاں کھلاڑی سندھی ہے، پٹھان ہے، پنجابی ہے یا بلوچ لیکن یہ بات کھلاڑی اور اُن کو پروان چڑھانے والے ادارے اور پریشر گروپ نہ بھولے۔ ہماری حکومتوں اور افسران کی بدانتظامی، بددیانتی اور اقرباء پروری یہاں بھی کام دکھا گئی، ہر حکومت من پسند افراد کو پرکشش معاوضے پر بورڈ کا چیئرمین بنا کر نوازتی ہے کچھ سابقہ کھلاڑیوں نے اپنی تربیتی اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں، کچھ میڈیا میں اینکرز ہیں ان کے اپنے پریشر گروپ ہیں، ان کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے، مفادات کی یہ جنگ کبھی کبھی قانونی جنگ بھی بن جاتی ہے۔ جب نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کی قانونی جنگ برائے چیئرمین شپ چل رہی تھی تو انڈیا نے بگ تھری کا آغاز کردیا۔ اس سے پہلے وہ آئی پی ایل میں آپ کے کھلاڑیوں کو نکال کر اس سری لنکن ٹیم پر حملہ کروانے میں ملوث ہوکر آپ پر اس کھیل کے دروازے بند کرنے کی سازش کرچکا تھا لیکن افسوس ہر شعبے کی طرح ہم نے اس دفعہ بھی اپنی غلطیوں سے نہ سیکھا۔ پچھلا ورلڈ کپ ہارنے کے بعد اگر نیا ٹیلنٹ تلاش کیا جاتا اور ایک ہی ٹیم کو مسلسل کھیلنے کے مواقع دئیے جاتے تو ورلڈ کپ میں فتح کے بعد ہم سازش کرنے والے اندرونی اور بیرونی عناصر کا منہ بند کرواسکتے تھے۔ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے پر مجبور ہوسکتی تھیں۔ ہر ورلڈ کپ سے پہلے آئی سی سی کے ہمارے بولرز پر پابندیوں کے سوال کو اٹھایا جاسکتا تھا لیکن ہم نے سوائے اکھاڑ پچھاڑ اور تجربات کرنے کے کچھ نہ کیا۔ وہی جواء، وہی ذاتی پسند ناپسند، وہی تبصرے، وہی پریشر گروپ اور وہی ذلت اور خواری، اس ستم ظریفی کو ملک کی مجموعی صورتحال کا عکس ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان تمام حامیوں کے باوجود کچھ عوامی دباؤ اور میڈیا کے شور نے ٹیم میں ذاتی پسند ناپسند کی تبدیلیاں نہ کیں اور باؤلرز نے بھی سر دھڑکی بازی لگا کر ملک کے عوام کو جیت کی ایک خوشی دی ہے اور کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا ہے ۔ان حالات میں میری سٹے بازوں اور جواری حضرات سے گزارش ہے کہ اس سنہری موقع کو اپنے مفادات کی بھینٹ مت چڑھائیں، خدارا قوم کو کہیں سے تو خوشی ملنے دیں، بورڈ کے ارکان کا مستقبل اور بادشاہی بھی اسی سے منسلک ہے۔