پشاورمیں سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکہ
پشاور میں سرکاری ملازمین کو لانے والی بس میں بم دھماکہ نے16قیمتی جانیں لے لیں اور قریباً 40 افراد زخمی ہوئے ان میں شدید زخمی بھی شامل ہیںیہ المناک اور افسوسناک سانحہ ہے، جس کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ پاک فوج تو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے اور دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے بعد اب ان کے آخری در بھی بند کرنے کی کارروائی جاری ہے۔ سول ادارے سیکیورٹی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں کیوں پوری نہیں کر رہے۔ یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد اپنے اِس انجام کے بعد اب ایسی مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں، جن سے بے گناہ عوام کا نقصان ہوتا ہے ان کا مقصد خوف وہراس ہے۔یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ دہشت گرد ہم ہی جیسے ہیں اور ان کے گماشتے شہریوں میں بھی گھسے ہوئے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون سے ایسے لوگوں کی تلاش بھی جاری رہتی ہے تاہم ابھی تک ایسا ماحول نہیں بن پایا کہ پوری قوم بیدار ہو کر ایسے بیمار ذہنوں کا سراغ لگا کر اطلاع دینا شروع کرے۔ یہ نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے، بلکہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی تعاون کرنا چاہئے اور علماء کرام بھی فتوؤں سے آگے بڑھ کر عملی تعاون کریں۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ سانحہ ہوتا ہے جب ایسے دھماکوں کی اِکا دُکا واردات ہوتی ہے۔اس سلسلے میں پہلے درجہ پر خیبرپختونخوا نشانہ ہے کہ اس کی سرحدیں بھی ہمسایہ مُلک افغانستان سے ملتی ہیں اور وارداتیئے ادھر سے آ کر ادھر واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ایک سے زیادہ مرتبہ باہمی تعاون اور مربوط پالیسی اور پروگرام کا اعلان کیا گیا، لیکن تاحال اس پر عمل میں وہ تیزی نہیں، جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں، اِس لئے وفاق اور صوبوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں کہ یہ سلسلہ رکے اور اس کا مکمل سدِباب ہو سکے۔