مجھے قانونی دو نمبری کر لینے دیں

مجھے قانونی دو نمبری کر لینے دیں
مجھے قانونی دو نمبری کر لینے دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اوسط درجہ کے جو قانون پسند شہری نرم دلی کا مزاج بھی رکھتے ہیں ، قریبی دوستوں کے نزدیک میرا شمار انہی انسانوں میں ہے ۔ کار چلاتے ہوئے کسی نے غلط اوورٹیک کر لیا یا سرخ بتی پہ بلا وجہ ہارن پہ ہارن بجنے لگے تو یہ سوچ کر چُپ سادھ لی کہ بچہ ، فقیروں کو کیوں تنگ کرتا ہے ۔

اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ترس کھانے کے رویہ کو انصاف کا نعم البدل سمجھ لیا جائے ، اگرچہ ترس میں یہ سہولت ہے کہ جس کسی پہ جب چاہا اور جتنا چاہا کھا لیا ۔

اور جب دل نہ مانا تو محض ’ہوڑ مت‘ سے کام چلانے کی کوشش کی ۔ ایک لحاظ سے دیکھیں تو صدیوں کے ارتقا میں جو انسانی جبلتیں پروان چڑھیں ، اُن میں اپنی من مانی اور دوسروں سے نرمی کا برتاؤ دونوں ہی جذبے شامل ہیں ۔ تو کیا اپنے فطری رجحان پہ چل کر بھی سماج میں زندہ رہا جا سکتا ہے ؟ مَیں آجکل اسی شش و پنج میں الجھا ہوا ہوں ۔


میرے الجھاؤ میں اضافہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ’سٹوری آف سویلائزیشن‘ کے مصنف وِل ڈیوراں کی بعد از مرگ شائع ہونے والی کتاب سے ہوا ، جسے اردو میں ’ٹوٹے ہوئے پتے‘ کے امکانی عنوان سے مصنف کے طویل مطالعہ و مشاہدہ کا نچوڑ سمجھنا چاہئے ۔

مکمل شخصی آزادی کے جدید نعرے کو مسترد کرتے ہوئے ، وِل ڈیوراں کا کہنا ہے : ’’مَیں پر جوش نوجوانوں کے اِس دعوے کو نہیں مانتا کہ ہر شخص کو اپنے ضمیر کے لئے ناقابل قبول کسی بھی قانون کو رد کر دینے کا حق حاصل ہے ۔

اِس بنیاد پہ تو کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی ۔ ۔ ۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ آندرے یِید(Andre Gide) ایسے شاندار لکھاری اور سگمنڈ فرائیڈ کے بعض ناخلف پیروکار ہمیں یہ سکھانے پہ تُلے ہوئے ہیں کہ کچھ ہو جائے ہمیں تو اپنی ہر جبلت اور ہر خواہش کو پورا کرنا ہے کیونکہ اپنے آپ کو پا لینے کا بھید اِسی میں ہے‘‘ ۔


انسانی زندگی کے عمومی مراحل ، مذہبی و اخلاقی مضامین ، سیاست ، تعلیم ، فنونِ لطیفہ اور تاریخی اسباق پر کوئی دو سو صفحات کی اِس کتاب کا بڑا موضوع اب تک کے ارتقا ئی عمل میں پیدا ہونے والے ہمارے جبلی رویے اور اُن کے اجزائے ترکیبی ہیں ۔ تاہم ، مصنف کی بیشتر توجہ انسانوں کے مجموعی طور طریقوں پہ ہے ، کسی مخصوص شخص کی انفرادی حرکتوں پہ نہیں ۔

انفرادی حرکت سے مراد ہیں مجھ جیسے ڈگر سے ہٹے ہوئے آئٹم کی ’آنیاں جانیاں‘ جنہیں کسی ایک سماجی طبقہ یا گروہ کے اجتماعی طرزِ عمل کے حوالے سے نہیں پرکھا جا سکتا ۔

جیسے چھٹیوں کے موسم میں فلائٹوں کی ’اووربکنگ ‘ کے پیشِ نظر لندن سے اسلام آباد تک مجبوری کے تحت فرسٹ کلاس میں سفر اور ہوائی جہاز سے اترتے ہی سست رفتار پسنجر ٹرین میں راولپنڈی سے لاہور تک کی تراپڑ تراپڑ ، فقط اِس لئے کہ مذکورہ ریل گاڑی میں مسافروں کا رش نہیں ہوتا ۔


بظاہر عملی افادیت سے عاری میری اِس فیصلہ سازی کو آپ ٹیکنیکل سطح پہ ابنارمل رویہ ہی کہیں گے ۔ سچ پوچھیں تو ابنارمل قرار پانے کا تعلق میری ذات سے کم اور اُس درجہ دار عمل کے ساتھ زیادہ ہے جس میں سے گزار کر مجھے اِس مرتبہ پہ فائز کیا گیا ۔ اِسکی وضاحت ایک مثال کے ذریعے بہت خوبصورتی سے ہو جائے گی ۔

فرض کریں کہ لوگوں کے مالی رویوں کا تعین کرنے کی خاطر ہم نے پانچ سوالوں پر مبنی ایک دستاویز تیار کی اور ہر سوال کے کچھ نمبر مقرر کر کے اِسے سو افراد میں بانٹ دیا ۔

پھر ، اِس ریسرچ یا ، رعب ڈالنے کے لئے کہیں گے ، کوانٹی ٹیٹو انیلیسز سے حاصل ہونے والے جوابات کو جمع کر کے متعلقہ افراد کی تعداد پہ تقسیم کر دیا ۔

اب آپ کے نارمل یا ابنارمل شمار کئے جانے کا انحصار اِنہی اوسط نمبروں پہ ہے ۔ تو گویا یہ نفسیات کا مسئلہ تو نہ ہوا ، علمِ شماریات کا سوال ہوا ۔


اِس تعریف کی رو سے خواہ آپ نارمل قرار پائیں یا ابنارمل ، یہ طے ہے کہ انتظامی اختیارات کے مالک انسان کو انصاف کے ضمن میں کبھی نہ کبھی کسی عجیب و غریب چیلنج کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے ۔

چیلنج یہ کہ پہلے نمبر پہ قانون یا محکمانہ ضوابط کے تقاضے کیسے پورے کئے جائیں اور پھر اِس دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انسانی ضروریات کا خیال کیونکر رکھا جائے ۔

اسے خوش قسمتی سمجھنا چاہئیے کہ بندہء ناچیز کو ایسے منصب پہ فائز ہونے کا موقع بہت کم ملا جہاں دل کے پلے گراؤنڈ میں انصاف اور رحم دلی کے بیچ کھیلا گیا ٹونٹی ٹونٹی باؤنڈری لائن کو پار کر سکتا تھا ۔

باؤنڈری لائن تو پار نہ ہوئی ، مگر وہ جو ناصر کاظمی کے ہم عصر غزل گو خواجہ شاہد نصیر کہہ گئے ہیں ’’دیکھ نیزے کی انی پر ہیں ترازو کتنے‘‘ ۔ تو اختیارات کم ہوں یا زیادہ ، حساس آدمی کے لئے ہر قدم ایک نیا امتحان سکتا ہے ۔


میرا امتحان اب سے دس سال پہلے شروع ہوا جب ایک نجی ٹی وی چینل کے علاقائی سربراہ کے طور پہ زندگی میں پہلی بار میرے سر پر دفتر کی طرف سے ایک موٹرکار مسلط کر دی گئی ۔

میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل گھر میں رواں صدی کی عمر سے کچھ ہی کم ایک رانا سانگا ٹائپ گاڑی اور چار پہیوں والی صابن دانی کے ہوتے ہوئے ہمیں یہ سہولت سرے سے درکار ہی نہیں تھی ۔

اِس لئے ہیڈ آفس کو لکھ بھیجا کہ نئی کار پہ پیسے ضائع نہ کئے جائیں ۔ زبانی جواب ملا کہ جنرل مینجر ، کنٹرولر اور بیوریو چیف کی سطح کے ہر عہدیدار کو یہ سہولت لازمی طور پہ دی جاتی ہے ، اِس لئے آپ کو بھی دی جائے گی ۔ نوکری کا معاملہ تھا ، لہذا مزید بحث تو نہ کی ۔ لیکن اِس خیال سے کہ کہیں مجھ سے کوئی قانون شکنی نہ ہوجائے ، ذہن میں کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے ۔


پہلا پوائنٹ یہی کہ صوبہء سندھ کی نمبر پلیٹ والی اِس ہونڈا سٹی کو لاہور کی سڑکوں پر چلانے کے لئے میرے پاس اگر ملکیتی دستاویز نہیں تو اسے زیرِ استعمال لانے کا کوئی تحریری اجازت نامہ تو ضرور ہونا چاہئیے ۔ دوسرا اہم سوال تھا کہ کیا کار والے کو اپنا کنبہ کار میں بٹھانے کا اختیار حاصل ہے ۔

مجھے سول حکومت کے شعبوں میں اسٹاف کار کے اصول و ضوابط سے آگاہی نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے دوستوں کی بیویاں اور بچے لبرٹی ، ایم ایم عالم روڈ اور وائی بلاک میں جو سرکاری گاڑیاں دوڑاتے نظر آتے تھے ، وہ اچھل کود کس کھاتے میں تھی ۔

ہاں ، میرے اسکول کے دنوں میں والد مرحوم نے آرمی ریگولیشنز کی تیسری یا چوتھی جلد میں سے ایک شق پڑھ کر سنائی تھی کہ صرف بریگیڈیر یا اُن سے بڑے عہدہ کے افسر اپنی اہلیہ کو اسٹاف کار میں ساتھ بٹھانے کے مجاز ہوتے ہیں ۔


ہیڈ آفس سے واضح ہدایات نہ ملنے پر مَیں اور تو کچھ نہ کر سکا ، بس دفتری کار چلانے سے گریز کا رویہ اپنا لیا ۔ ہفتے میں ایک دن البتہ انجن اسٹارٹ کر کے اپنے ہی رہائشی علاقہ میں چھوٹا سا چکر لگا لیتا کہ کہیں میری قانون پسندی کی پاداش میں کار کی بیٹری نہ بیٹھ جائے ۔ تو کیا دفتر کے دیگر ساتھیوں کے سلسلے میں بھی میرا رویہ اتنا ہی سخت تھا ؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ۔

اسی لئے تو آج سے دس سال پہلے ٹرینی جرنلسٹ کو ماہانہ بائیس سے پچیس ہزار روپے اور ریگولر رپورٹر کو چالیس سے پینتالیس ہزار روپے کرتے ہوئے شرمندگی کا احساس ہوتا کہ یہ رائے حسنین طاہر ، نجم الحسن عارف ، انجم گِل ، شاہد حسین اور الماس اے خان کی محنت اور لگن کا معقول معاوضہ نہیں ۔ نو عمر صحافیوں میں راحیل اظہر ، عاطف خالد بٹ ، محمد یاسر اور اعتزاز حسین المعروف بہ شاہ رخ کی اٹھان قابلِ قدر تھی ۔


ہمارے چینل کے سینئر اراکین کا پیشہ ورانہ تعلق رائٹرز نیوز ایجنسی ، وائس آف جرمنی اور بی بی سی سے ہونے کے باعث خوش دلی کے اِس ماحول میں ہم سال بھر ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار بھی رہے ۔

یہی کہ ہماری پیشہ ورانہ کوششیں ایک ایسے نشریاتی ادارے کے ظہور پر منتج ہوں گی جس پہ بولے گئے الفاظ اور دکھائی گئی تصویریں دنیا بھر میں حتمی ساکھ کی حامل ہوں ۔ ایک ایک کر کے ہم سب کی علیحدگی کے بعد ٹاک شوز تعزیتی مجالس میں کیسے تبدیل ہو ئے اور ہر نیوز بلیٹن کا شور و غوغا دعوتِ ولیمہ کا تاثر کیوں دینے لگا ؟ یہ سبق آموز اور عبرت انگیز موضوع پھر کسی دن ۔

اِس وقت تو وہی ابتدائی سوال سامنے ہے کہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے آپ نے قانون کے تقاضے کس حد تک پورے کئے اور اگر نرم دلی سے کا م لیا تو کیا یہ قانون کے دائرے میں رہ کر تھا یا اُس سے باہر ؟


اللہ کی قسم مجھے اِس کا جواب نہیں آتا ۔ اگر آتا ہوتا تو پچیس کارکنوں پر مشتمل ہمارے بیوریو میں بلاقیمت چائے کافی کا خرچہ مارچ 2008ء میں چون ہزار روپے ماہوار تک نہ پہنچ جاتا ۔

بس یونہی دیکھا دیکھی کئی لوگوں نے مشینی حمام سے ہر دو گھنٹے بعد کافی کی دودھ پتی نچوڑ لینا معمول بنا لیا تھا ۔ کراچی میں ہمارے سی ای او ، جو مفت چائے کافی نہ دینے کی میری ابتدائی تجویز کو ایک ’چَوَل ‘ سمجھ کر ریجیکٹ کر چکے تھے ، اِس نئی صورتحال پہ بہت تلملائے ۔ چنانچہ جب ’ٹی بریک‘ دن کے گیارہ اور ساڑھے تین بجے تک محدود کر دی گئی تو نائٹ شفٹ والے احباب آتے ہی پوچھتے ’’ ساڈے حصے دے دو دو کپ کتھے نیں؟‘‘ اب یہی صورتحال ایک نجی یونیورسٹی میں درپیش ہے جہاں تین گھنٹے لیکچر کے آخری دس منٹ شکل دکھانے والا اسٹوڈنٹ رعب ڈال کر کہتا ہے کہ میری حاضری لگائیں ۔

مَیں کورس کوارڈینیٹر کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ مشفقانہ لہجہ میں سمجھانے لگتا ہے ’’ یہ آپ کے شاگرد نہیں ، کلائنٹ ہیں اور کلائنٹ کبھی غلطی پہ نہیں ہوتا‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -