اختیار اور تشدد

اختیار اور تشدد
 اختیار اور تشدد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیوزی لینڈ کے لوگوں نے کیا کبھی اس بارے میں سوچا بھی تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ کرائسٹ چرچ کی ان دونوں مساجد میں پولیس پہرے پر موجود نہیں تھی۔ جن پر یہ ہولناک حملہ کیا گیا تھا۔ نیوزی لینڈ میں کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کو پولیس حفاظت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ صرف نیوزی لینڈ ہی کیا نائن الیون کے بعد بھی بہت سے یورپی اور دیگر علاقوں کی حکومتوں نے اپنی عبادت گاہوں کو تحفظ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ سب افغانستان کی جنگ اور نائن الیون کے بعد ہوا کہ پوری دنیا میں آہستہ آہستہ اندرونی تحفظ بیرونی تحفظ سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا گیا۔

ابھی چند ماہ قبل اپنے دوست امتیاز عالم کے ساتھ مجھے ازبکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم تاشقند کے علاوہ سمر قنداور بخارا بھی گئے۔ امام بخاریؒ کے روضے پر حاضری دی اور ایک خوبصورت مسجد میں نماز ظہر ادا کی مسجد کے امام موجود نہیں تھے۔ وہ شاید دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ ایک ازبک باشندہ اپنے چھوٹے چھوٹے پوتوں کے ساتھ مسجد میں آیا اور نماز کی امامت کی۔

مسجد کے اندر اس نے خود اذان دی جس کی آواز باہر سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایسی خوبصورت مسجد کا فرش دبیز قالینوں سے آراستہ تھا لیکن نمازی ندارد، ہم سمیت محض چند افراد جماعت میں شامل تھے۔۔۔ اور وہ بچے جو اپنے دادا کے ساتھ آئے تھے۔ اوکاڑہ پریس کلب کے صدر شہباز شاہین نے بہت کوشش کی کہ مسجد کے امام سے تعارف ہو۔ لیکن ان کی بجائے ایک گائیڈ سے ملاقات ہو گئی۔ روضہ میں اور مسجد کے باہر کوئی پولیس موجود نہیں تھی۔ البتہ داخلی دروازے پر ایک باڈی گارڈ نظر آیا۔

ایک سوال کے جواب میں گائیڈ نے بتایا کہ بعض ازبک باشندے افغانستان کے طالبان کے شاگرد بن کر روس کے خلاف لڑتے رہے لیکن ازبکستان میں کوئی ایک تشدد کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ زندگی کی سہولتوں سے بہرہ مند ہیں اور اپنے ملک کو پرُ امن رکھنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں اب بھی کمیونسٹ طرز کی سخت گیر حکومت ہے لیکن سرمایہ کاری آسان بنا دی گئی ہے۔ وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کا بھی یہی حال ہے، لیکن مشرق وسطیٰ نے تشدد افغان جنگ سے حاصل کیا۔

امریکی سامراج نے افغانستان پر حملہ کر نے کے بعد ان تمام مسلمان ممالک کو تباہ کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ جو عسکری اعتبار سے مضبوط تصور کئے جاتے تھے۔

عراق ان میں پہلے نمبر پر تھا۔ عراق کی بربادی کے ساتھ ہی شام، لیبیا اور پھر یمن اندرونی خلفشار کا شکار کئے گئے اور یہ سب امریکہ کی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کیا گیا اور جب امریکہ کے اس عالمی اختیار کو چیلنج کرنے کا وقت آیا تو تمام اسلامی ممالک خاموش ہو گئے۔ کشمیر میں بھارت انسانوں پر اختیار مانگ رہا ہے کہ انہوں نے کیسے جینا ہے اور کس طرح کی زندگی بسر کرنی ہے جبکہ بے اختیار لوگ ان کی مزاحمت کر رہے ہیں۔

گورے پوری دنیا پر حکومت کا اختیار مانگتے ہیں۔ اٹھارویں صدی سے لے کر اکیسویں صدی تک وہ اسی حوالے سے جنگوں میں مصروف ہیں۔ اور نتیجتاً محروم لوگوں کا تشدد جنم لیتا ہے۔ کرائسٹ چرچ میں حملہ آور در اصل صدر ٹرمپ کا ماننے والا ہے یہ نیوفاشسٹ اور نئے قدامت پسندوں کی جنگ کا ایک ترجمان ہے جو ہر اس آواز اور قوم کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو ان کے عالمی غلبے میں رکاوٹ ہیں۔

یہ اسرائیل کے متعصب ریاستی تشدد کا ایک مظاہرہ ہے جو دنیا میں غلبے کے لئے لڑ رہا ہے۔ یورپ کی کثیر آبادی اس تصور کی حامی بھی ہے۔ خود نیوزی لینڈ کی سفید فام وزیر اعظم نے اس پر دلی رنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔

لیکن اس ایک حملے نے پورے نیوزی لینڈ کے کلچر اور انتظامی سوچ کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب نیوزی لینڈ کی مسجدوں اور کلیساؤں پر پولیس کا پہرہ ہوگا، اسی طرح جس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیس کی حفاظت میں نماز ادا کی جاتی ہے۔

افغانستان کے جہاد کے فکری اساتذہ کامیاب ٹھہرے جب افغانستان میں مسلح جہاد جاری تھا تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو بار بار یہ کہتے تھے کہ یہ جہادی پیمانہ لبریز ہو کر ہماری سرحدوں میں چھلک پڑے گا۔ اس وقت یہ غدارِ اسلام کہلائے اور اب بھی ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو مسلح کارروائیوں کو حق بجانب قرار دیتے ہیں۔ تشدد اختیار حاصل کرنے کی عصبیت سے پھوٹتا ہے، پھر اس کا ردعمل سامنے آتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -