ریاست، میڈیا اور میر شکیل الرحمان

Mar 18, 2020

کوثر عباس


جدید دنیا میں میڈیا ریاست کے ایک اہم ستون کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میڈیا (Media)دراصل میڈیم (Medium)کی جمع ہے۔ کمیونیکیشن کے تمام ذرائع کو میڈیا کہاجاتا ہے۔عرف عام میں یہ لفظ انفارمیشن اور خبر کے تمام ذرائع کے لئے مستعمل ہے۔ ان ذرائع میں ٹیلی ویژن اور اخبارات کی اہمیت نہ صرف مسلمہ ہے، بلکہ یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ جس طرح سخاوت کا نام آتے ہی ذہن میں حاتم طائی کا نام آ تا ہے،بالکل اسی طرح خبر کا نام آتے ہی انسانی ذہن میں جن دو چیزوں کا نام آتا ہے، وہ ہے نیوز چینل اور نیوز پیپر۔اسلام نے معاشرے میں میڈیا کے اثر و نفوذ کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر بھاری ذمہ داری عائدکی اور یہ آفاقی اعلان فرمایا: ”اگر کوئی فاسق (شخص) تمہارے پاس(کسی قسم کی بھی)کوئی خبر لے کر آئے تو اس (خبر) کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ (اس خبرکو نشر کر کے یا اس کی بنیاد پر کوئی ایکشن لے کر)تم کسی قوم (فریق) کو لاعلمی میں تکلیف پہنچا بیٹھو اور بعد میں (اپنے) اس (کیے)پر پچھتاتے پھرو“……سورۃ الحجرات:آیت 6:۔اس آیت میں ایک بندے کا ذکر بالکل واضح ہے اور وہ ہے خبر لانے والا، جسے آج کی دنیا میں رپورٹر کہا جاتا ہے،

لیکن دوسرے بندے کا ذکر واضح نہیں ہے، بلکہ اسے ”تم“ سے تعبیر کیاگیا ہے اورمناسب بھی یہی تھا، کیونکہ اس لفظ میں میڈیا کے تناظر میں ایک کثیرالجہتی جامعیت اور آفاقیت ہے جو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک پوری سوسائٹی کوشامل کرتی ہے، کیونکہ یہ لفظ ہر زندہ، عاقل اور بالغ انسان کو شامل سمجھتا ہے، لیکن اس کے دو مخاطب بالخصوص قابل توجہ ہیں۔ایک حاکم وقت یا کوئی بھی ایسا انسان جسے کسی بھی سطح پر فیصلہ سازی کا اختیار دیاگیا ہے اور دوسرا میڈیا جس کا اوڑھنا بچھونا ہی خبر ہے۔اس آیت میں میڈیا کے لیے بالخصوص تصدیق (Certification) کی بجائے تحقیق (Investigation) کا لفظ استعمال کیا گیا، کیونکہ تصدیق اس چیز کا نام ہے کہ آپ کے پاس کوئی خبر پہنچی اور آپ نے سیاق و سباق یا اس رپورٹر پر اعتمادکرتے ہوئے اسے سچا مان کر نشر کر دیا،لیکن تصدیق اس چیز کا نام ہے کہ آپ نے اس خبر کی مکمل تحقیق کرکے ہی اسے نشر کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ رپورٹر کون ہے اور سیاق و سباق کیا کہتا ہے؟یعنی میڈیا کا پیمانہ صرف سچ ہے۔


اسی آیت میں دوسری بات یہ بتائی گئی کہ اگر میڈیا بغیر تحقیق کے کوئی خبر نشر کردے گا تو اس سے متعلقہ فریق کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔یہ نقصان دو طرح کا ہوسکتا ہے……ایک نقصان ساکھ کا ہوسکتا ہے، یعنی کسی فرد، ادارے یا کسی ملک کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ فرد کی مثال: سقوط ڈھاکا کے ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب یہ جملہ منسوب ہے کہ اس نے کہا تھا: ”اِدھر ہم اُدھر تم“……اس جھوٹی خبر کی اشاعت نے ذوالفقار علی بھٹو کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا…… ادارے کی مثال: جیسا کہ پاکستان میں فوج اور عدلیہ کے بارے میں کچھ حدود و قیود مقرر ہیں تا کہ جھوٹی خبروں کی اشاعت ان اداروں کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچائے۔ملک کی مثال: جیسا کہ جھوٹی خبروں کو عالمی پیمانے پر پھیلا کر پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیاگیا، جس کے مختلف مضمرات نکلے،جن سے پاکستان میں سیاحت اور کھیلوں کا خاتمہ ہوگیا۔

جھوٹی خبر کی وجہ سے پہنچنے والے جانی نقصان کی بات کی جائے تو انفرادی سطح پر اس کی مثالیں: احسن اقبال پر گولی چلا ئی گئی اور نوازشریف پر جوتا پھینکا گیا۔ملکی سطح پر نقصان کی بات کی جائے توکون نہیں جانتا کہ عراق پر حملے کے لیے میڈیا کی جھوٹی رپورٹوں کے سہارے ہی راہ ہموار کی گئی تھی۔ ضابطہ حیات، خبروں کی نشرواشاعت اوراس کے فوائد و مضمرات کے بعد میڈیا میں جو چیز اہم ہے، اس کانام ہے خبر کی تردید۔اسی آیت میں اس چیز کا ذکر بھی موجود ہے، جس کو ”نادمین“ یعنی ندامت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ندامت، پچھتاوا یا تردید بین السطور ایک ہی چیز کا نام ہے۔اس آیت نے میڈیا کے لیے ایک ایسا ضابطہء حیات مقرر کردیا ہے،جس پر جدید میڈیا کی پوری عمارت قائم ہے۔آزاد اور سچا میڈیا ریاست کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست مدینہ کے والی فاروق اعظمؓ حالات سے آگاہی کے لیے راتوں کو بھیس بدل کر گشت کیا کرتے، لیکن آج میڈیا کی وجہ سے حکمرانوں کو گشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔حاکم وقت ایک کمرے میں بیٹھ کر پورے ملک کے حالات سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو اپنے لیے اللہ کا انعام کہاتھا، جس نے حق مہر کے ضمن میں ان کی رہنمائی کی تھی،لیکن افسوس عمران خان کی ”ریاست مدینہ“ میں اگر میڈیا حالات سے آگاہ کرے یا درست سمت کی رہنمائی کرے تو اسے پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔عرفان صدیقی کی طرح میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئی ہے، جن کا جواب دینا ممکن نہیں ہوگا۔اسی میر شکیل کے ساتھ کبھی عمران خان میراتھن کیا کرتا تھا، بڑے بڑے رفاہی پروگرام کیا کرتا تھا اور اسی کے ادارے کی شعور کے فروغ میں کی گئی کوششوں کا اعتراف کیا کرتا تھا۔نیب کا قانون یہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے الزام کی ویریفکیشن کی جائے، اس کے بعد انکوائری کی منظوری، حقائق درست ہونے پر انویسٹی گیشن، پھر شواہد جمع کر کے ریفرنس اور اس کے بعد اگر ملزم کی پوزیشن ایسی ہو کہ وہ ثبوت مٹا سکتا ہو یا اس کے ملک سے بھاگنے کا خدشہ ہو تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

کیا میر شکیل الرحمان کیس اورگرفتاری میں ان لوازمات کا خیال رکھا گیا؟کیا وہ پبلک آفس ہولڈر رہے ہیں؟کیا یہ کیس نیب کے دائرۂ کار میں آتا ہے؟شکایات تو پرویز خٹک اورصوبائی وزیر مشتاق غنی کے خلاف بھی ہیں، بلکہ انکوائری کی منظوری بھی دی جاچکی ہے، نامزد تو نندی پور کیس میں بابر اعوان بھی ہیں، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خلاف نیب خود ہی انکوائری کی منظوری دے چکا ہے۔، نیب ہی نے موجودہ چیئرمین پیمرا کے خلاف بھی ایک ریفرنس درج کررکھا ہے، لیکن یہ لوگ نہ صرف آزاد ہیں، بلکہ اپنے عہدوں پر بھی قائم ہیں۔سچی بات ہے کہ جب مَیں نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی خبر سنی تو میرے ذہن میں عمران خان کے کنٹینر پر کھڑے یہ الفاظ گونجنے لگے: ”میر شکیل الرحمان مَیں تمہیں چھوڑوں گا نہیں“…… سچی بات ہے کہ ان الفاظ نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اور پورے کیس کو گہنا دیا ہے۔سونے پر سہاگا یہ کہ ملک بھر میں جیو کی بندش اور اسے آخری نمبروں پر دھکیلنے کے عمل نے میرے جیسے قانون پر یقین کرنے والوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ کیس تو میر شکیل الرحمان پر تھا جو پنجرے میں بند ہو چکا ہے، تو جیو کو کیوں بند کیا جارہا ہے؟

مزیدخبریں