ملک کا شعبہء صحت وزیر اعظم کی توجہ کا متقاضی
بڑے مقاصد کے حصول میں آزمائشیں، دقتیں، مشکلات، رکاوٹیں اور دشواریاں نہ صرف ناگریز ہوتی ہیں،بلکہ مقصد کے حصول کا لازمی جزو بھی ہیں، اس میں کامیابی صرف انہی کے حصے میں آتی ہے جو ثابت قدمی اور الوالعزمی کے خوگر ہوتے ہیں اور ان تکلیفوں کا صبرو استقامت سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیوی ایجادات و تخلیقات کو ہی اگر لے لیں تو ان کے خالق دشوار گزار اور صبر آزما مرحلوں سے گزر کر ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایجادات کسی عمل کا ردعمل بھی ہوسکتی ہیں اور کسی سے متاثر ہوکر اس کی تقلید میں بھی کوئی اچھا بامقصد کام کیا جا سکتا ہے۔ جیسے بجلی، جسے 1700ء میں بنجمن فرینکلین نے ایجاد کیا، جس کو دیکھ کر 1879ء میں تھامس ایڈیسن نے بلب تخلیق کیا۔ اسی طرح ہماری اپنی مثال کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے رد عمل میں 28مئی 1998ء میں ہم نے اپنے تحفظ، بقا اور دفاع کے لئے ایٹمی دھماکہ کیا جو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بار آور کوششوں کا ثمر ہے۔ اسی طرح راقم الحروف ایک طرف ڈاکٹر اے کیو خان کے کام سے متاثر ہوا تو دوسری طرف شوکت خانم میموریل ہسپتال قائم کرنے والے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی شبانہ روز کوششوں،محنت اور عرق ریزی سے اس ہسپتال کے قیام نے مجھے بہت متاثر کیا۔میرے ذہن میں یہ دو نام نقش ہوکر رہے گئے۔سوچتا رہتا تھا کہ مَیں بھی ان کی طرح کوئی بامقصد اور اچھا کام کروں۔
عمران خان آج وزیر اعظم کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں 1947ء سے اب تک درجنوں وزرائے اعظم آئے جس میں عمران خان کے نام کا بھی اضافہ ہوا۔ بقول ایک دانشور کے کہ لوگ اپنے عہد کے لوگوں کو ہی یاد رکھتے ہیں اور ماضی کی شخصتیوں کو ”آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل“ کے مصداق فراموش کر دیتے ہیں، مگر ہاں ایسے لوگ جنہوں نے اپنی نوعیت کا کوئی اچھوتا بامقصد کارنامہ انجام دیا ہو تو وہ امر ہو جاتے ہیں، جیسے قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جن کے اسمائے گرامی قیامت تک لوگوں کے اذہان و قلوب میں نقش رہیں گے،جبکہ آج بھی اگر کسی پڑھے لکھے آدمی سے استفسار کیا جائے تو شاید وہ ہمارے تمام گزشتہ وزرائے اعظم کے نام نہ بتا سکے، مگر درج بالا شخصیات کے نام عام آدمی بھی بغیر توقف کے فوراً بتا دے گا۔ اسی طرح عمران خان کی بھی وزیر اعظم کی حیثیت سے پہچان رہے یا نہ ر ہے، مگر شوکت خانم کینسر ہسپتال کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور لوگ ا ن کے اس بے مثال کارنامے کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
ان کا یہ باب تاریخ پاکستان کے روشن ابواب کے زمرے میں آئے گا،یہی ان کی پہچان رہے گا۔پھر مجھے تحریک ہوئی اور میرے ذہن میں ایک رفاہی ہسپتال قائم کرنے کا خیال جاں گزین ہوگیا۔اس حوالے سے مَیں نے اسلام آباد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کی اور لاہو ر میں ایک ہسپتال قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو انہوں نے بخوشی قبول کر لی،ان کے دل میں بھی غریبوں کا درد رچا بسا ہوا ہے،یوں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کا آغاز ہوا جس کے چیئر مین ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں، راقم الحروف اس کا جنرل سیکرٹری اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے۔ یوں اکتوبر 2013ء میں لاہور کے گنجان آباد علاقے قلعہ لچھمن سنگھ نزد مینار پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی اور فروری 2015ء میں ہسپتال نے اپنی طبی خدمات کا آغاز کردیا،اس 5 سال کے عرصے میں ہم نے 5لاکھ سے زائد غریب مریضوں کو علاج معالجے کی مفت سہولتیں فراہم کیں جو تاحال جاری ہیں۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان میں شعبہء صحت زبوں حالی کا شکار ہے،اس میں بہتری کے لئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے روز مَیں اپنے ایک عزیز کی عیادت کے لئے میو ہسپتال گیا تو ایک ایک ایک بستر پر دو دو مریض لیٹے ہوئے پائے گئے،اس پر مستزاد یہ کہ مریضوں کے بستروں پرکھٹمل اور کاکروچ آزادانہ گھوم پھر رہے تھے،صفائی کا بھی ناقص انتظام تھا، جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مہنگا علاج ہونے کے باعث غریب طبقہ وہاں سے علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ وزیر اعظم عمران خان خود بھی اس ساری صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں، وہ اپنے د ل میں غریبوں کا درد رکھتے ہیں اور صحت کے شعبے میں بہتری اور اصلاحات کے لئے مضطرب اور فکر مند رہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلاحی اوررفاہی اداروں کے تحت کام کرنے والے ہسپتالوں کو مراعات دیں،تاکہ غریب اور پسماندہ طبقے کا بہتر علاج ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے ہم ان کے گزارش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت تنہا سب کچھ نہیں کر سکتی، اگر وہ رفاہی ہسپتالوں کو خاطر خواہ سہولتیں اور مراعات دے تو یہ حکومت کے کام میں قابل قدر حد ہاتھ بٹا سکتے ہیں اور اس سے غریب لوگ بھی بہتر طبی سہولتوں سے استفادہ کر سکیں گے۔
یہاں یہ امر بھی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال جو مکمل طور پر ایک فلاحی منصوبہ ہے اور متروکہ وقف املاک بورڈ نے اس کو دی گئی زمین کی ناقابل واپسی سیکیورٹی کی مد میں چار کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی، جو کوئی درست اقدام نہیں، کیونکہ یہ رقم غریب مریضوں کے لئے مشینری کی خریداری کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔ علاوہ ازیں ہسپتال کو جو زمین دی گئی ہے، وہ بھی کمرشل ریٹس پر دی گئی ہے جو صریحاً زیادتی ہے، جبکہ یہ ایک فلاحی منصوبہ ہے۔وزیر اعظم عمران خان جو خود بھی ایک سماجی شخصیت ہیں اور ایک عرصے سے شوکت خانم ٹرسٹ ہسپتال چلا رہے ہیں،ان کو ان مشکلات کا مکمل ادارک ہے جو ایسے اداروں کو درپیش رہتی ہیں تو ان سے ہماری درخواست ہے کہ ہمیں متروکہ وقف املا ک بورڈ سے ناقابل واپسی سیکیورٹی کی رقم نہ صرف واپس دلوائی جائے،بلکہ ہسپتال کو دی گئی اراضی کا کرایہ کمرشل ریٹس کے بجائے خصوصی رعایتی ریٹس پر مقرر کیا جائے، کیونکہ اس وقت تین سو بستروں پر مشتمل مین ٹاور کی تعمیر جاری ہے، دوسری طرف غریب مریضوں کا علاج معالجہ بھی جاری ہے، جس میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے تو ایسے حالات میں ہمیں فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔
ہم پُرامید ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اس سمت جلد اور مثبت قدم اٹھائیں گے، تاکہ ہم بہتر سے بہتر طور پر غریب مریضوں کا علاج کر سکیں۔ہماری مخیر حضرات سے بھی استدعا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ہمیں اپنے دست تعاون سے نوازیں اور غریب مریضوں کی مدد کریں جو خود اپنا علاج کرانے سے قاصر ہیں۔ اس سال بھی اپنی زکوٰۃ اور عطیات ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کو ہی دیں،تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال پاکستان غریبوں کا مقدر بن سکے۔ اس حوالے سے مخیر حضرات اپنے یا اپنے پیاروں کے نام سے کوئی فلور، وارڈ یا کمرہ منسوب کرا سکتے ہیں جو ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گا، ہسپتال کو طبی مشینری یا ہسپتال کی ضرورت کی دیگر اشیاء بھی عطیہ کی جا سکتی ہیں۔