کرونا اپ: سیاست ٹھپ، کرونا نے سیاسی سرگرمیاں معطل کردیں، بلاول نے بھی پروگرام ملتوی کر دیا
لاہور سے چودھری خادم حسین
نئی وباء کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ پاکستان بھی اس سے متاثر ہے، تاہم اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہاں ابھی تک تعداد بہت کم ہے اور کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ تاہم اب خدشات نے ضرور گھیر لیا ہے کہ ایسا ممکن ہے کیونکہ پہلے تو تفتان کے راستے آنے والے قریباً چالیس افراد نے وہاں قرنطنیہ میں رہنا مناسب نہ جانا اور کھسک کر سکھر آ گئے، ان میں سے 13افراد میں کرونا کی تصدیق بھی ہو گئی، یہ سب زائرین ہیں جو ایران سے زیارتیں کرکے واپس آئے اور انہوں نے پابندیوں کو بوجھ سمجھ کر جھٹک دیا اور اب انتظامیہ کے لئے نئی مشکل پیدا کر دی کہ وہ ان حضرات کو تلاش کر رہی ہے جن کے ساتھ ان متاثرین کی ملاقات ہوئی۔ پنجاب میں ”ستے خیراں“ تھیں اور یہاں شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ چیکنگ کا نظام درست نہیں ہے چنانچہ لاہور میں ہی ایک متاثر فرد مل گیا جو برطانیہ سے آیا تھا اور گھر جا چکا تھا، وہ خود ہی ڈاکٹر کے پاس گیا تو کرونا کا شبہ ہوا بعدازاں ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی اب وہ زیر علاج ہے اسی طرح ہمارے سٹاف رپورٹر کی یہ خبر ہے کہ پی آئی اے والے تین مسافروں کو کرونا کے شبہ میں جنرل ہسپتال چھوڑ کر گئے تھے، ان کی دیکھ بھال نہ ہوئی، ان میں سے دو افراد خاموشی سے ہسپتال چھوڑ کر چلے گئے اور صرف ایک مریض باقی رہ گیا اور اب یہ فکر لاحق ہو گئی کہ وہ دونوں بھی وائرس کی منتقلی کا سبب بنیں گے کہ اس وائرس کے ایک سے دوسرے کو انتقال میں وقت ہی نہیں لگتا اگر جلد ہی متاثرین اور ان سے ملنے والوں کا سراغ نہ ملا تو اس متعدی مرض کے پھیلاؤ کا شدید خطرہ ہے اور ہمارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اس لئے نہ صرف سرحدوں اور ایئرپورٹوں پر چیکنگ کا نظام سخت بنایا جاتا اور ضروری ہو گیا بلکہ متاثرہ حضرات کو تلاش کرنا بھی لازم ہے، ان متاثرین سے جو گھروں کو چلے گئے خصوصی اپیل کی جائے کہ وہ رضاکارانہ طور پر واپس آ جائیں اور جو جو ان سے ملا وہ بھی خود کو چیک کرانے کے لئے مقررہ سنٹر پر تشریف لے آئے تاکہ متاثرین کا علاج ہو سکے اور جو بچ گئے ان کو احتیاط اور تحفظ کی تلقین کی جا سکے۔
اب ذرا بات ہو جائے پاکستان میں کئے جانے والے انتظامات اور اقدامات کی تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تشہیر کا سلسلہ شروع کیا۔ تعلیمی ادارے اور شادی ہال وغیرہ بند کئے، تفریحی مقامات بھی ممنوعہ قرار دیئے گئے اور اب تو پورے پنجاب میں دفعہ 144 ض ف کے تحت چار سے زیادہ افراد کے اجتماع پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ آئسولیشن وارڈ بنا دیئے گئے، تشخیصی مراکز بھی تیار کر لئے ہیں، تاہم ایک بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک اور اس صوبے میں ہسپتال پہلے ہی مریضوں کے حوالے سے کم اور جو ہیں وہ بھی بھرے پڑے ہیں، اور ہماری حکومت نے انہی میں آئسولیشن وارڈ بنائے ہیں۔ یہاں ایک سروسز ہسپتال میں بنا تو دوسرا جنرل ہسپتال میں کڈنی انسٹی ٹیوٹ میں 30بستروں کا اہتمام کیا گیا، یہ قطعی ناکافی اور گنجان بھی ہے، اس لئے اس پر غور کرنا ہوگا کہ اللہ نہ کرے کہ یہاں لوگ زیادہ متاثر ہوں تاہم ہمیں قرنسطنیہ کا بھی اہتمام کر لینا چاہیے۔ بہتر ہو کہ یہ نظام گنجان آبادیوں سے دور کیا جائے۔
بہتر ہو گا کہ ہم یہاں ہونے والی بدعنوانیوں پر بھی حکومت کی توجہ مبذول کرا دیں، حکومت کی طرف سے کوئی تاریخ متعین کئے بغیر اجتماعات (شادیوں سمیت) پر پابندی عائد کی گئی تو کئی افسوس والے واقعات ہو گئے چائنہ سکیم (شمالی لاہور) میں پولیس کی جمعیت نے کھانا کھاتے ہوئے باراتیوں کے باوجود باہر سے شادی ہال کو ”سیل“ کر دیا اور سب کو اندر محصور ہونا پڑا، پھر یہ لوگ چھت پر گئے اور سیڑھیاں لگا کر نیچے اترے، اسی طرح بعض شادی گھروں سے کھانا اٹھا کر تھانے والوں کی تواضح کے لئے لے گئے اور پھر اجازت دی تو لوگو ں نے گیراج میں مہمانوں کو کھانا کھلایا، یہ حکم جاری کرتے وقت معروضی حالات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا کہ یہ شادیوں کا سیزن ہے اور تاریخیں، بکنگ کئی کئی ماہ پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔ اب گھروں کی چار دیواری کے اندر اجازت دی ہے تو شائد لوگ مقررہ تاریخوں پر مختصر اجتماع کے ساتھ شرعی فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔
صرف اسی پر موقوف نہیں، کرونا نے معاشی سرگرمیوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے برآمد بند ہو چکی، درآمد بھی متاثر ہے، تاہم یہاں اللہ کا کوئی خوف نہیں،مہنگائی مافیا میدان میں آ گیا، بکرے کا گوشت گیار سو سے ساڑھے گیارہ سو روپے اور پھر بارہ سو روپے فی کلو کیا گیا تھا وہ آج ساڑھے بارہ سو فی کلو بکا ہے۔ اسی طرح انڈے اور مرغی بھی مہنگی بک رہی ہے۔ انڈے(فارمی)105 روپے درجن فروخت ہوئے، سبزیوں کے نرخ بھی بڑھ گئے، جبکہ ذرائع آمدنی (دیہاڑی دار) ختم ہو گئے اوپر سے مہنگائی کا کرونا کھائے جا رہا ہے، حکومت کو وبائی کرونا کی فکر ہے۔
اسی طرح سٹریٹ کرائمز میں یکایک اضافہ ہوا، وحدت روڈ کی آبادی مصطفےٰ ٹاؤن متاثرین بھی شامل کہ نوجوان راہزن خواتین اور مرد حضرات سے پرس اور موبائل چھین رہے اور تھانے والے سوئے ہوئے ہیں۔
بہرحال اچھا عمل یہ کہ سیاسی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہو گئیں، اجتماعات ختم بات صرف بیانات تک رہ گئی، بلاول بھی اپنا دورہ اور مصروفیت چھوڑ گئے، جبکہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کرونا کرونا کرتی پھر رہی ہے۔