انتخابی اصلاحات،وزیر اعظم کا سپیکر کو خط،کالیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کیا،شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر:عمران خان
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سینیٹ انتخابات میں عدم شفافیت کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیا خط میں وزیراعظم نے اسپیکر قومی اسمبلی سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ خط میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ چاہتے ہیں آئندہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات ہوجائیں،شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پیسہ چلا۔میں نے ہر سطح پر شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات کی بات کی۔ سینیٹ انتخابات میں میری جماعت نے اوپن بیلٹنگ کا مطالبہ کی۔انہوں نے لکھا کہ ہم قومی اسمبلی میں بل لائے اور سپریم کورٹ بھی گئے۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کو شفاف بنانے کی ہدایت کی۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کیاوزیراعظم عمران خان سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ون آن ون ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صوبے کے انتظامی، ترقیاتی اور سیاسی امور بارے بریفنگ دی۔سردار عثمان بزدار نے وزیراعظم کو بریفنگ میں کہا کہ پنجاب میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کو تیز کر دیا ہے۔ قبضہ مافیا سے واگزار ہونے والی زمینیں عوامی مفاد میں استعمال کے لئے کمیٹی بھی بنا دی ہے۔وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ کی ہدایت کے مطابق قبضہ مافیا کے خلاف آخری حد تک جائیں گے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے تیزی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب بھر میں سہولت بازار لگانے کے لئے اتھارٹی قائم کر دی ہے۔ صوبائی وزرا کو صوبہ بھر میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر چیک رکھنے کے لئے ڈیوٹیز دی ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ قبضہ مافیا کے خلاف حکومت پنجاب کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکومتی اقدامات میں تیزی لائی جائے۔دریں اثناوزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ذاتی مفادات پر مبنی تحریکیں کامیاب نہیں ہوسکتیں، پہلے بھی کہا تھا پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وزیرداخلہ شیخ رشید، وزیردفاع پرویزخٹک، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے شرکت کی، اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے کورونا کے باعث مالاکنڈ اوردیگرمقامات پرجلسے منسوخ کردیئے۔سکیورٹی ڈائیلاگ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو حق رائے دہی دے، یہ دونوں ملکوں کیلئے بہتر ہے، خطے میں امن کیلئے بھارت کو پہلا قدم اٹھانا پڑے گاسکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیوں سے ملک کو محفوظ بنایا، نیشنل سیکیورٹی پر بحث کی ضرورت ہے، نیشنل سیکیورٹی کے اہداف بہت وسیع ہیں، ہم اب تک قومی سلامتی کو صرف سیکیورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کی نظر سے دیکھتے ہیں، موسمی تبدیلی پر 6 سال پہلے کوئی بات نہیں کرتا تھا، ہم نے 10 بلین ٹری سونامی کا آغاز کیا، فخر ہے کہ بلین ٹری سونامی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، فوڈ سیکیورٹی ملک کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلی مرتبہ ہم 4 ملین ٹن گندم ایکسپورٹ کی، تمام ماہرین کی غذائی پیدوار سے متعلق پیش گوئیاں غلط نکلیں، ہماری سب سے زیادہ توجہ غریب کو اوپر لانے پر ہے، غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کا کردار مثالی ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، علاقائی امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کا ہوگا، علاقائی امن کے بغیر اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، افغانستان میں امن کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں، بائیڈن انتظامیہ بھی سمجھتی ہے جنگ مزید نہیں چلنی چاہیے۔ بد وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب تک قومی سلامتی کو صرف ایک پہلو سے دیکھتے رہے ہیں کہ ہم اپنی افواج کو جتنا مضبوط کریں گے انتنا محفوظ ہوں گے لیکن اصل میں قومی سلامتی میں ایسی چیزیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جو اس قبل کسی نے نہیں سوچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 5 سے 6 سال پہلے کوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہی نہیں کرتا تھا، لیکن ہماری آنے والی نسل کے لیے موسمیاتی تبدیلیاں ایک ایسی چیز ہے جو سب مسائل پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تجزیے موجود ہیں کہ خطرات کا شکار پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیاں ہماری نسلوں کے لیے خوفناک چیز ہے اور مجھے فخر ہے کہ ہماری حکومت سے اس پر اقدامات کیے لیکن اس سے قبل اسے قومی سلامتی کے تناظر میں کبھی دیکھا نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک معاملہ آگیا ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی پوری تیاری کرنی ہے اور قومی سلامتی کے لیے یہ بھی اہم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے بعد ہمارا ملک جس عذاب سے گزار ہے اور جس طرح کے سیکیورٹی خطرات کا ہمیں سامنا تھا جس پر ہماری سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر ہمیں محفوظ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمیں فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری حکومت کی کاوشوں جیسا کہ 10 ارب درخت سونامی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمیں فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری حکومت کی کاوشوں جیسا کہ 10 ارب درخت سونامی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے وہ اقدامات کیے ہیں جو دنیا میں بہت کم ممالک نے اٹھائے ہیں اور ہم ہر اس ملک کے ساتھ شامل ہوں گے جو پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت اقدامات کریں گے، مجھے خوشی ہے کہ امریکی حکومت نے اپنی گزشتہ 4 سال کی پالیسی تبدیل کر کے دوبارہ ماحولیاتی معاہدے میں شمولیت اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک اور بہت بڑا مسئلہ خوراک کا تحفظ ہے، جتنی تیزی سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے، اور اس کی وجہ سے پہلی مرتبہ ہم نے ایک سال میں 4 ملین ٹن گندم درآمد کی اور اپریل میں ہم ایک نیا اور جامع منصوبہ لے کر آرہے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں غذائی تحفظ کس طرح یقینی بنانا ہے کیوں کہ 2 سال کے عرصے میں ہمیں یہ احساس ہوا کہ قوم، سرکاری محکموں میں اس کی سوچ ہی موجود نہیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوچ تو دور کی بات ہے کہ ہمارے پاس گندم کی پیداوار کا جائزہ ہی موجود نہیں تھا اور جتنے پیداواری جائزے موجود تھے وہ سب غلط نکلے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے پر ہمیں سب سے زیادہ زور دینا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا غذائی تحفظ کس طرح کرنا ہے اور زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آبادی دیگر ممالک سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ اتنی ہی اہم چیز معیشت ہے، ہماری کمزوری یہ ہے کہ روایتی طور پر ملک میں آنے والے اور ملک سے جانے والے ڈالرز میں بہت بڑا فرق رہا ہے اور یہ خسارہ براہِ راست ہماری کرنسی پر اثر انداز ہوتا ہے اور جب کرنسی متاثر ہوتی ہے تو سب چیزیں متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سب سے پہلے اشیائے خور و نوش مہنگی ہوجاتی ہیں، تیل، بجلی، ٹرانسپورٹ، دالوں کی درآمد، گھی، خوردنی تیل سب چیزوں کا اثر غریبوں پر پڑتا ہے اور ملک میں غربت بڑھ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے وہ کرنا ہے جو چین نے کیا تھا کہ انہوں نے 30 سے 35 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر اوپر کیا ہے اور اب حالیہ حکومت نے اس بات کا جشن منایا کہ انہوں نے چین سے شدید غربت ختم کردی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چاہے کوئی چین کو پسند کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے اور یہ سب سے زیادہ سیکیرٹی دیتی ہے کسی ملک کو کہ اس کا ہر شہری سمجھے کہ حکومت ہماری بھی فکر کرتی ہے۔
وزیر اعظم