ایسا تو ہوگا

ایسا تو ہوگا
ایسا تو ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب سیاست نظریات کی بجائے مفادات پر ہوگی.جب ورکرز کو نظر انداز کر کے صرف حصول اقتدار کے لیے لوٹوں کو اہمیت دی جائے گی. جب ملک میں آئین و قانون کو مقدم رکھنے کی بجائے چاپلوسی و خوشنودی پر فیصلے کروائے جائیں گے. جب عوامی رائے کو روند کر ان پر مرضیاں مسلط کی جائیں گی. جب اقتدار دینے کے فیصلے عوام کی منشاء کے خلاف ہوں گے. جب اپنے مفادات کے لیے دوسروں سے آئین کے سراسر خلاف مدد لی جائے گی. جب جمہوریت کے نام پر سیاست صرف کچھ خاندانوں یا چند افراد تک محدود ہوگی اور انہی کا حق سمجھی جائے گی. جب پرانے ورکرز کو برے وقت میں استعمال کیا جائے اور اچھا وقت آنے پر اس سے نظریں چرائی جائیں گی. جب اختلاف کرلینے والے محسن کو دشمن  اور خوشامد کرنے والے دشمن کو محسن سمجھا جائے گا.
پھر وہی  دغا بھی دیں گے بیوفائی بھی کریں گے اور موقعہ ملتے ہی ڈسیں گے بھی.
وہی خوشامدی جو آپ کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے وہ آپ کے خلاف غزل گوئی میں مصروف نظر آئیں گے.
 جن کو آپ پرانے کارکنوں پر ترجیح دے کر ان کے سہارے چھت پر چڑھے تھے تو وہ نیچے سے سیڑھی لے کر ضرور بھاگ جائیں گے.
2018 کے الیکشن سے کچھ پیچھے چلتے ہیں. ہم 90 کی دہائی میں ہونے والی غلطیوں کا ذکر نہیں کرتے. ہم 1998 سے لے کر 2008 تک  پرویز مشرف کے اقتدار کو جواز بخشنے والی باتوں کو بھی فی الحال ایک طرف کر دیتے ہیں. یا کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں کہ  نواز شریف کو   کیوں کیسے اور کس کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور پھر ملک عزیز  پر تقریبًا ایک عشرے سے بھی زائد" سیاسی خزاں" مسلط رہی اور اقتدار ایک ڈکٹیٹر کے پاس رہا. کیا جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والوں نے خود اس ڈکٹیٹر کو جوازِ اقتدار فراہم نہیں کیا تھا؟
کیا اس وقت جمہوریت کو تہس نہس کرنے والے تمام سیاست دان آج کسی نا کسی جمہوریت کی  دعویدار چیمپئن جماعت میں شامل نہیں ہیں؟
کیا آج وہی لوگ جمہوریت کے گن گاتے نظر نہیں آتے جنہوں نے خود پورے اہتمام سے جمہوریت کا قتل کیا تھا تاکہ انہیں کسی نا کسی حد تک اقتدار میں سے حصہ مل جائے.
ہمارے ہاں سارے نظریے، سارے فلسفے، سارے اخلاقیات کے بھاشن، سارے اصول اور ساری روایات صرف اس وقت یاد کی جاتی ہیں جب تک  اقتدار نہ مل رہا ہو. جب اقتدار ملنے کی آس امید ملے تو یہ اپنے ہی بنائے اصول اور اپنے ہی بیان کردہ نظریات کو چند لمحوں میں ذبح کردیتے ہیں.
2013 میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ( ن) نے تمام وہ لوگ (ماسوائے چند لوگوں کے) اپنی جماعت کا حصہ بنا لیے تھے جن کی وجہ سے جمہوریت کا قتل ہوا تھا. تمام ان لوگوں کو اقتدار میں سے حصہ دیا تھا جنہوں نے ڈکٹیٹر شپ کا "رج" کے فائدہ اٹھایا تھا.
جب معاملات بگڑے اور دو تہائی اکثریت ہونے کی خماری کی وجہ سے نواز شریف  نے خود کو بہت مضبوط سمجھنا شروع کر دیا تو پھر ان لے ساتھ جو ہوا اور اب تک ہورہا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں.
لوگوں نے نظریں چرانے میں ذرا دیر نہیں کی اور بڑے بڑے قریبی بھی  نواز شریف کو چھوڑ کر چلے گئے. ان دنوں چوہدری نثار علی خان جیسے پرانے اور قریبی دوست نے چھوڑ دیا. جاوید ہاشمی جیسے قریبی نے بھی تب ساتھ چھوڑ دیا تھا اگرچہ وہ بعد میں واپس آگئے. اور کئی درجن لوگوں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوئیں جس کے نتیجے میں مسلم لیگ( ن) وفاق تو کیا پنجاب میں بھی حکومت بنانے سے ہاتھ دھو بیٹھی.
تب الیکشن کے قریب کالز کروا کروا کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کروائی جا رہی تھیں تب کہا جاتا تھا کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے اور جب جہاز بھر بھر کر لوگوں کو پی ٹی آئی میں لایا جا رہا تھا تب کہا جاتا تھا کہ یہ نئے پاکستان کے معمار ہیں لیکن آج  کچھ لوگوں نے پی ٹی آئی سے منہ موڑ لیا ہے تو نونہالان انقلاب کو اخلاقیات، روایات اور نا جانے کیا کیا یاد رہا ہے.
اب کہیں نا کہ وکٹیں گر رہی ہیں...
دوسری طرف ان لوگوں نے جب مسلم لیگ (ن )کو دھوکہ دیا تو مسلم لیگ (ن )نے گذشتہ 3 سال ان تمام غلطیوں کو تسلیم کیا اور یہ بھی کہا کہ اب ہم نظریاتی ہوگئے ہیں اب کسی قسم کی لوٹا گردی کی سیاست نہیں کریں گے لیکن آج انہی لوٹوں کو مسلم لیگ( ن) فراخ دلی سے قبول کر رہی ہے.
کیا یہ ابھی تازہ تازہ ہی قائم کیے گئے اپنے ہی اصولوں کی نفی نہیں ؟
مسلم لیگ (ن )نے پورے 3 سال یہ دھائی دی کہ ہم نے ملک سے  برے نظام کا خاتمہ کرنا ہے ووٹ کو عزت دلوانی ہے چاہے اقتدار اگلے 10سال نا ملے لیکن اب اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کرنا تو کیا مسلم لیگ (ن )اپنی کہی وہ تمام باتیں بھلا چکی ہے؟؟ 
حکومت کی جانب سے الزام ہے کہ ممبران اسمبلی کو کروڑوں روپے دے کر اپوزیشن نے خریدا ہے جبکہ اپوزیشن اور ممبران اسمبلی اس بات کی نفی کررہے ہیں.
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ممبران اسمبلی نے واقعی عوام کی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی پالیسیوں سے تنگ آکر نظریاتی طور پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے یا پھر انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے ٹکٹ دینے کے وعدے لے کر یہ ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہے؟
اگر تو یہ واقعی غیر مشروط حمایت ہے تو پھر تو کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کا ضمیر جاگا ہے لیکن اگر اس کے عوض انہوں نے کسی بھی قسم کا وعدہ لیا ہے تو مسلم لیگ (ن )مت بھولے کہ یہ وہی طریقہ ہے جس کے خلاف وہ 3 برسوں سے انقلابی ہونے کا دعویٰ کررہی ہے.
پی ٹی آئی سے اختلاف کرنے والے اراکین جو سامنے آئے ہیں حکومتی اراکین ان کو چور ڈاکو لٹیرے اور غدار وطن قرار دے رہے ہیں.
سوال یہ ہے کہ ‏اگر یہ اتنے ہی بڑے غدار، چور، ڈاکو،لٹیرے یا کرپٹ تھے تو کل تک انہیں آپ دودھ کا دھلا کس منہ سے قرار دے رہے تھے؟ 
مسلم لیگ( ن) کو بھی ضرور سوچنا ہوگا کہ اگر یہی رستے اپنا کر اقتدار حاصل کرنا تھا تو پھر پچھلے 5برسوں سے آپ کو جو انقلاب آیا ہوا تھا اس کا کیا کریں گے؟
جن چیزوں پر گلی گلی کوچے کوچے  آپ اپنی مظلومیت کا رونا روتے تھے آج خود وہی کیوں دھرانے جارہے ہیں؟
اگر انہی لوٹوں کی مدد سے آپ نے اقتدار حاصل کرلیا تو کل کو کیا گارنٹی ہے کہ یہ آپ کو یوں ہی بیچ بازار چھوڑ کر نہیں جائیں گے؟

بقول اقبال
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   

مزید :

بلاگ -