پتہ چلا الیکشن کیا ہوتا ہے......؟
سنئیر صحافی جناب علیم عثمان بھی چلے گئے......!
لاہور پریس کلب کے اس الیکشن سے کوئی ایک مہینہ پہلے ان کے ساتھ کلب لان میں چائے کی پیالی پر طویل نشست ہوئی.....وہ کوئی نہ کوئی دلچسپ بات کرتے اور پھر خوب قہقہے لگتے.....وہ اس دن اقبال قریشی صاحب (جو کلب الیکشن والے روز انتقال کر گئے)اور اقبال بخاری صاحب کے"مشترکہ رومانس"پر مزے لے لے کر گفتگو کر رہے تھے جبکہ شرکائے مجلس بھی ان کی" پھلجڑیوں"سے خوب محظوظ ہورہے تھے.......مجھے 2013کے دسمبر سے علیم صاحب جب بھی ملے انہیں خصوصی طور پر سلام کہا اور وہ مسکرادیے......ہوا یوں کہ میں نے مذکورہ سال ایک "خراب حال گروپ لیڈر "کی درخواست پر انہیں جوائن کرتے ہوئے گورننگ باڈی کا الیکشن لڑا....گروپ کے "اتنے برے دن "تھے کہ مجھ سمیت3 بندے جیتے اور باقی "پورا ٹبر "ہار گیا....میری خوش قسمتی کہ جناب راجہ اورنگزیب،جناب طاہر پرویز بٹ،جناب عظیم قریشی،جناب تنویر زیدی،جناب اسرار بخاری،جناب نوید چودھری،جناب عظیم نذیر،جناب اعجاز حفیط خان اور جناب شہباز انور خاں سمیت کتنے ہی اکابرین میری چھوٹی سی نشست کے لیے مجھے ووٹ اور سپورٹ کر رہے تھے.....جناب طاہر پرویز بٹ سے مجھے ایک خاص تعلق ہے کہ میں نے 1999میں اپنے "صحافتی کئیریر "کا آغاز ان کی زیر ادارت "روزنامہ صحافت" سے کیا........شکرگڑھ سے میرے عزیز از جان صحافی دوست ملک یونس میری انگلی پکڑ کر مجھے جناب فضل اعوان کے پاس علامہ اقبال ٹائون آفس لائے اور وہ مجھے بٹ صاحب کے پاس لے گئے.....انہوں نے اسی وقت نیوز روم میں کام کرنے کی اپروول دیدی.....پھر میں نے روزنامہ "خبریں" اور" آج کل" میں بھی ان کے زیر سایہ بہت کچھ سیکھا.....طاہر پرویز بٹ صاحب الیکشن مہم کے ہنگام ایک دن علیم عثمان کو پریس کلب میں ملے اور کہا کہ یار علیم ایک ووٹ امجد عثمانی کو دے دیجیے گا.......علیم عثمان، جو بٹ صاحب کا دل سے احترام کرتے، بولے سر آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر وہ تو بہت عجیب بندہ ہے ......نوشین نقوی اور راجہ ریاض کے سوا کسی سے سلام بھی نہیں لیتا....پھر بھی آپ کہتے ہیں تو ووٹ حاضر......بٹ صاحب نے مجھے علیم عثمان کا بے باک موقف سنایا تو میں نے قہقہہ لگایا اور کہا سر باقی لوگوں کا تو پتہ نہیں مگر کلب کے استقبالیہ پر بیٹھے علیم عثمان کو تو میں روزانہ سلام کرتا ہوں.....وہ مسکرائے اور بولے وہ ایسا ہی شرارتی مگر بہت اچھا آدمی ہے.....ہمیں ووٹ دیدے گا......میں نے اس دن علیم عثمان کو خاص طور پر ڈھونڈا اور کہا علیم صاحب خدا کا خوف کریں....کیوں میرے سنئیرز کے سامنے مجھے بدنام کرتے ہیں....میں نے جناب کو ایک نہیں ہمیشہ ست سلام کیے.....انہوں نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا پتہ چلا الیکشن کیا ہوتا ہے......؟؟؟پھر کہنے لگے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بٹ صاحب حکم دیں اور میں حکم عدولی کروں.....!!!!اس دن سے مرتے دم تک ہم ایک دوسرے کو خصوصی طور پر سلام کرتے رہے کہ ہم دونوں بٹ صاحب سے "صحافتی بیعت" کے باعث" پیر بھائی" بن گئے تھے .......وہ اپنے ہی مزاج کے "خوش مزاج آدمی" تھے....بلاشبہ لاہور کی صحافت ایک نیک نام اخبار نویس سے محروم ہو گئی . .......لاہور پریس کلب کا "حلقہ یاراں" تنویر عباس نقوی،راجہ حسن جیل اختر،اختر حیات، راجہ اورنگزیب،تنویر زیدی اور حافظ ظہیر اعوان کے بعد علیم عثمان کو بھی کبھی بھول نہیں پائے گا.......!!!!
علیم عثمان صاحب تم پر سلامتی ہو.....!!!!
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.