بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیں 

بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیں 

  

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو سینیٹ آف پاکستان کی 50 سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے دوسرے روز کمیٹی آف دی ہول سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اصلا حات، معاشی ایجنڈا، کفایت شعاری سمیت اہم اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اختلافات ایک طرف رکھ کے مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ اْنہوں نے کہا کہ اگر کوئی لیڈر پاکستان کو تباہ کرنے پر تُلا ہے تو اْسے اِس کی اجازت نہیں دیں گے، کوئی بھی قومی اور عوامی مفاد کو داؤ پر نہیں لگا سکتا یا ملکی حالات خراب نہیں کر سکتا، سازشوں کی بجائے کاوشوں کا راستہ اختیار کریں، خرابی پیدا کرنے کی بجائے اِسے دور کریں، نفرت اور زہر پھیلانے کی بجائے محبت بانٹیں اور قوم کے دُکھ درد کو تقسیم کریں، غربت، بیروزگاری، بیماری ختم کریں، اگر اب بھی عملی اقدامات نہ  کئے تو بہتری آنا ممکن نہیں ہے۔ اْن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بے شک یہ مشکل وقت ہے، پاکستان کو امپورٹڈ افراط زر کا سامنا ہے، روس یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اشیاء خورو نوش، تیل، گیس اور کھاد کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے، پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کوبھی اِسی بد ترین صورت حال کا سامناہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق جب اْنہوں نے اقتدار سنبھالا تھا تو معیشت برے حال میں تھی، گذشتہ حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن  شرائط کا پاس نہ کیا جس کی وجہ سے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں میں بھی پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچا۔اب ان کا دعویٰ ہے کہ چند دنوں میں معاہدہ طے پانے کی امید ہے، ویسے بھی آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط تو اب مانی جا چکی ہیں۔انہوں نے گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس نے فنڈز کا بے دریغ استعمال کیا، خزانہ خالی کر دیا، نوٹ چھپتے رہے اور بجٹ کے بغیر بے شمار سبسڈیز دی گئی۔ اْنہوں نے اور اْن کے اتحادیوں نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست کو قربان کر دیا۔ سب سے اہم بات جس کا تذکرہ جناب شہباز شریف صاحب نے کیا کہ ماضی میں تمام تر اختلا فات کے باوجود ملک کے عظیم تر مفاد کے لیے سیاسی قیادت مل بیٹھتی تھی،تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے جب سیاسی قیادت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے زعماء مل بیٹھے اور بڑے سے بڑے بحران کا حل بھی گفت و شنید کے ذریعے نکالا گیا۔انہوں نے 1965ء کی جنگ پوری قوم کے ایک ہونے کی مثال دی،1971ء کی جنگ کے بعد وزیراعظم کے شملہ روانہ ہونے کا منظر کھینچا، 2014ء  میں دہشت گردی کی لہر اور سانحہ پشاور پر پوری قوم کے یکجا ہونے کو دہرایا۔ ویسے تو اْنہوں نے سابق حکومت کو مخالف سیاسی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے کی پالیسی پر آڑے ہاتھوں لیا لیکن دیکھا جائے تو اب بھی ایسی ہی صورتحال کا سامناہے، جو شکوہ گزشتہ دورِ حکومت میں حزبِ اختلاف کو تھا وہی گلہ موجودہ دورِ حکومت میں حزب اختلاف کو بھی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا کھیل کھیلتے کھیلتے ملکی و قومی مفادتو دھندلا دھندلا سا معلوم ہونے لگا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے چین اور جنوبی کوریا کی مثالیں بھی دیں کہ کس طرح وہ ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے لیکن آج ہم سے کئی گنا آگے ہیں، ترقی کی منازل طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر سے اتفاق کیا جا سکتا ہے،یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ مذاکرات کا راستہ بند کر لینے سے صرف اور صرف اختلافات ہی بڑھتے ہیں، حالات ہی خراب ہوتے ہیں، ریاست کا نظام ہی درہم برہم ہوتا ہے۔ جب ملک ایک ہے، مقصد ایک ہے تو پھر ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کرنے سے صرف ملک دشمن عناصر کو ہی تسکین مل سکتی ہے، عوام کو تقسیم کرنے، نفرت پھیلانے سے خرابی بڑھے گی۔ابھی تازہ مثال ہی لے لیں، گزشتہ تین دن لاہور میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تحریک انصاف کے کارکن آمنے سامنے رہے، راستے بند ہو گئے، عجیب و غریب قیاس آرائیاں ہوتی رہی، افواہیں پھیلتی رہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کی اِس طرح گرفتاری کوئی قابلِ ستائش عمل نہیں ہے لیکن جس طرح کا رویہ تحریک انصاف کی طرف سے اپنایا گیا وہ بھی کسی طور قابل ِ تعریف نہیں ہے۔

 پاکستان میں اِس وقت تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ماسوائے جماعت اسلامی اور چند دیگر چھوٹی بڑی دینی اور سیاسی جماعتوں کے کسی نہ کسی شکل میں حکومت میں موجود ہیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں جبکہ باقی دیگر جماعتیں وفاق، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا حصہ ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں اور وہاں اِس وقت نگران حکومتیں موجود ہیں۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات ہو جائیں جبکہ مشکل معاشی حالات اور دہشت گردی کے پیش نظر صوبائی انتظامیہ الیکشن کرانے کے لیے مزید وقت چاہتی ہیں لیکن یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے جسے مل بیٹھ کر حل نہ کیا جا سکے، بس نیک نیتی شرط ہے۔ اِن حالات میں خوش آئند بات یہ ہے کہ جب وزیراعظم نے یہ تقریر کی تو اِسی دن ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کریں گے، اِس ضمن میں وہ کسی سے بھی بات کرنے اور اِس جانب ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ 

 صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی پہلے بھی تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان پْل کا کام سرانجام دینے کی کوشش کر چکے ہیں، گو اُس وقت اْنہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی تاہم اب تو وزیراعظم دعوت دے رہے ہیں اور عمران خان صاحب بھی پاکستان اور جمہوریت کے لیے قربانی دینے اور ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں تو ایک بار پھر یہ کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صدرِ پاکستان ایک بار پھر یہ ذمہ داری لیتے ہوئے  فریقیں کے فوری مل بیٹھنے اور بات چیت کے آغاز کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ خواہش اور اْمید یہی ہے کہ دونوں فریق اپنی بات پر قائم رہیں گے، اپنے گریبانوں میں جھانکیں گے، اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے اور صحیح معنوں میں عوامی رہنما ہونے کا حق ادا کریں گے، کسی بھی طرف سے کوئی ”یوٹرن“ نہیں لیا جائے گا۔ اہل ِ سیاست پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک میز پر بیٹھیں، ملکی مفاد کو مقدم جانیں اور عوام کے حق میں فیصلہ کریں۔ جب وہ عوام کا رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، عوام کے مفادات کی جنگ لڑنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو اْن کا ہر قدم اْن کے قول کا عکاس ہونا چاہئے۔ وزیراعظم صاحب کی اِس بات سے اختلاف کسی طور ممکن نہیں کہ ہمیں اپنے مسائل کا حل بھی خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ کوئی بھی باہر سے آ کر ہمارے معاملات طے نہیں کر سکتا۔ دور نہ جائیں ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال ہی لے لیں، تمام تر مسائل کے باوجود وہاں کوئی بھی قومی مفاد کے آڑے نہیں آتا۔ ہم تو ابھی ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی خود لینے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے، دوسروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم خود کفیل ہونا چاہتے ہیں، اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں تو شروعات آج ہی سے کرنا ہو گی۔

مزید :

رائے -اداریہ -