مسائل پر اتفاق،مل بیٹھنے میں رکاوٹ کیا ہے؟

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے جو خطاب کیا وہ غور کے قابل ہے اگرچہ انہوں نے واضح طور پر تو بات نہیں بتائی لیکن دفاع کے حوالے سے جو دعویٰ کیا اس سے بہت کچھ مترشح کہ آئی ایم ایف کے جو سیاسی مقاصد ہیں ان کے ذریعے پاکستان کا بازو مروڑ کر اسے خطے میں باجگذار بنانے کے دیرینہ پروگرام کے تحت ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اسحاق ڈار نے برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لئے کم از کم دفاعی صلاحیت سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں اس کے باوجود تاخیر کی گئی اور اب دوست ممالک کا امتحان لینے کی بات کر رہے ہیں، ان سے قبل وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی سینیٹ کے اس خصوصی اجلاس سے خطاب کیا اور اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پھر سے کہا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام مشکل ہے۔انہوں نے مذاکرات کی پھر دعوت دی اور کہا کہ سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں کہ یہ ملک و قوم کا سوال ہے۔
لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے قارئین کے سامنے ہے،اس حوالے سے عام لوگوں میں ازخود تبصرے ہو رہے ہیں، میں صرف یہ کہوں گا کہ ہمارے سیاست دان کوئی ایسا نظام وضع کریں کہ وہ چوپال اور تھڑہ سیاست کی باتیں سن سکیں،ان کو معلوم ہو جائے گا کہ عوامی خیالات کیا ہیں اور یہاں کتنی دلسوزی سے کیسی بہتر تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ اسحاق ڈار نے جو کہا سو کہا اگرچہ واقعات کا اظہار کیا تاہم ساتھ ہی ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا جبکہ فرزند راولپنڈی شیخ ر شید کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہو چکا اور اب فواد چودھری نے یہ کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے قسط نہ دی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
یہ سب اپنی جگہ اب تو خود عمران خان نے جمعرات کو زمان پارک میں مختلف وفود اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک و قوم کے لئے سب سے بات کرنے کو تیار ہیں،اس بار انہوں نے ساتھ یہ نہیں کہا کہ وہ ”چوروں“ سے بات نہیں کریں گے، میں نے یہ بات نشریئے میں سنی اور اخبار میں پڑھی ہے اگر یہ سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں تو اسے خوش آئند ہی قرار دیا جائے گا اور میں تو عرض کروں گا کہ اب کسی چودھری شجاعت کو فریقین کو میز پر بٹھانے کی کوشش ضرور کرنا چاہئے کہ مذاکرات سے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ورنہ حالات یہ ہیں کہ اس شدید محاذ آرائی میں چونچ اور دم گم ہو جانے والا معاملہ ہے اشرافیہ (خواہ تعلق کسی سے ہو) کا تو کچھ نہیں جائے گا نقصان تو ان عوام کا ہو گا جن کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے جہاں تک اشرافیہ کا تعلق ہے تو اگر آپ ان امتحانی مراکز کا جائزہ لیں جو تصدیق شدہ ہیں اور انگریزی بول چال اور تحریر کا امتحان لے کر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ لازم ہے اور اشرافیہ اپنی اولاد کو تعلیم کے بہانے بیرون ملک بھجوا رہی ہے تاکہ اولاد جا کر والدین کی راہ بھی ہموار کرے،میری اطلاع کے مطابق اب تک کم از کم پانچ لاکھ سے زیادہ طلباء صرف لاہور کے منظور شدہ مراکز سے رجوع کر چکے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب غیر یقینی حالات کے باعث ہے اور جس اشرافیہ سے اس بار قربانی کے لئے کہا جا رہا ہے وہ وطن چھوڑنے کی قربانی دینے کے اسباب ڈھونڈ رہی ہے، اللہ خیر کرے۔
یہ حالات ڈھکے چھپے نہیں ہیں، اس کے باوجود محاذ آرائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی جو کچھ لاہور میں ہو رہا اور جو انکشافات کیے جا ہے ہیں وہ دُکھ دینے والے ہیں،میں کسی فریق کو ا لزام دیئے بغیر کہوں گا کہ مذاکرات برائی نہیں، ان سے تو مسائل حل ہوتے ہیں،اگر آپ تمام تر تحفظات کے باوجود عدالت عالیہ کے فاضل جج کی تجویز پر صوبائی چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وفد بنا کر مل سکتے ہیں تو آپس میں بات چیت کیوں نہیں کر سکتے،میرے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی بات کرتا ہوں، جب پاکستان قومی اتحاد کی پوری قیادت (ماسوا پیر پگارو) نظر بند تھی، رہنما جیلوں اور زیادہ تر سہالہ ریسٹ ہاؤس میں تھے،ایسے تلخ ماحول میں مرحوم سردار عبدالقیوم خان کو ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے رہا ہو کر سرکاری مراعات کے ساتھ نظر بند (محبوس) رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا اور آخر کار قومی اتحاد کو پیپلزپارٹی سے مذاکرات پر آمادہ کر لیا، میں نے لاہور میں سردار عبدالقیوم کی آمد اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے رپورٹنگ بھی کی تھی، وہ ایک مدبر اور محتاط شخصیت تھے۔ ہمارے تلح سوالات کو بھی میٹھا کر کے جواب دیتے رہے تھے ان کی کوششوں سے بالآخر مذاکرات کی میز سج گئی تھی،اس کا انجام کیا ہوا، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میں اور میرے دوسرے احباب و سینئر لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہوئے ہیں، آج بھی حالات سب کے سامنے ہیں جو عرض کیا اس کی روشنی میں بھی یہی خواہش ہے کہ بات چیت شروع ہو اور مسئلہ حل ہو جائے، جہاں تک انتخابات کا سوال ہے تو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے لئے عمل جاری ہے اگرچہ شکوک و شبہات دامن نہیں چھوڑ رہے، ہمیں دامن جھٹک کر بیٹھنا ہو گا اور جب بات چیت شروع ہو گی تو پھر راہ بھی نکلتی چلی جائے گی اگر حکومتی حکام سے ملاقات ہو سکتی ہے اور عدلیہ کے روبرو دلائل دیئے جا سکتے ہیں اور بات مانی بھی جاتی ہے تو ملکی سلامتی اور قومی و عوامی مسائل کے حل کے لئے راستے کیوں نہیں کھل سکتے۔
میں نے1977ء کے حوالے سے ذکر کیا تو یہ بھی عرض کروں گا کہ قومی اتحاد کی قیادت نظر بند تھی لیکن پیر علی مردان شاہ پیر آف پگارو راولپنڈی کے فائیو سٹار ہوٹل میں مقیم تھے وہ نظر بند نہیں تھے بلکہ اس دور کے میڈیا سے بھی بات کرتے تھے۔ ایک روز پی سی ہوٹل کی اس لابی میں اچانک سکیورٹی حکام آ گئے جس کی وجہ سے یہ خبر پھیل گئی کہ پیر پگارو کو بھی نظر بند کر دیا گیا ہے،اس کے جواب میں سندھ میں حروں نے باہر نکل کر سڑک بلاک کر دی تھی یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا کہ خود ذوالفقار علی بھٹو، پیر پگارو سے ملنے چلے آئے اور واضح کیا کہ نظر بندی نہیں ہوئی بلکہ سکیورٹی حکام نے وزیراعظم کی آمد کے باعث انتظامات کئے تھے۔بھٹو صاحب نے پیر پگارو سے مل کر پہلے یہ بات کی اور ان کا بیان اور ملاقات کی خبر بی بی سی ریڈیو سمیت ملکی ذرائع پر چلی اور سندھ میں رکاوٹ دور کر دی گئی، پیر پگارو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مذاکرات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔پیر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بھٹو صاحب کو بتا دیا تھا کہ وہ سب کے ساتھ ہیں اکیلے کچھ نہیں کریں گے۔بعدازاں پیر پگارو سے حروں کے حوالے سے کئی بار بات ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے والد کے دور میں حر مجاہدین نے انگریزوں کی فوج کا مقابلہ کیا تھا۔ بعدازاں ان حر مجاہدین کو ہم نے فوج کا حصہ بنا دیا اور اب ایک حر بٹالین فوج کی معاون ہے اور ظاہر ہے کہ حر مجاہدین کی عقیدت پگڑی والوں کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی عرض کر چکا ہوا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا مودودیؒ سے بھی ملاقات کی تھی،حالات قوم کے سامنے ہیں سب کا دعویٰ ملکی سالمیت اور قومی درد ہے اور مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اگر یہ سب درست ہے تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟