زمان پارک اور ٹکٹوں کے متلاشی

جس دن تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی اعجاز شاہ کو کی گئی کال لیک ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا تمام پارٹی رہنماؤں کو پیغام پہنچا دیں کہ بندے لے کر زمان پارک پہنچیں، اُسی دن شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے ایک وڈیو پیغام کے ذریعے یہ ”حکم“ جاری کیا کہ پنجاب کے ہر ضلع سے سابق ارکان اسمبلی اپنے حامیوں کے ساتھ جلد از جلد لاہور پہنچیں، اُسی دن یہ عقدہ کھلا کہ تحریک انصاف میں رہنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو کال کرتے ہوئے عمران خان کا یہ پیغام بھی دیا تھا جو زمان پارک نہیں پہنچے گا اسے انتخابات کے لئے ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا، یہ تو معلوم نہیں کہ ملتان کے رہنماؤں پر شاہ محمود قریشی کے وڈیو پیغام کا اثر ہوا یا نہیں لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کے پیغام نے جادو کاکام کیا اور وہ پارٹی رہنما بشمول، سابق ارکانِ اسمبلی جو ملتان کے چوک نونمبر چونگی پر احتجاج ریکارڈ کراکے گھروں کو لوٹ جاتے تھے اور اپنے آرام دہ بستروں پر گہری نیند کے مزے لیتے تھے، انہیں عجلت میں گاڑیاں پکڑ کر زمان پارک لاہور پہنچنا پڑا۔ جہاں ساری رات جاگنا پڑتا ہے اور روٹی بھی لنگر کی ملتی ہے، اگر عمران خان کا یہ پیغام ڈاکٹر یاسمین راشد کی زبانی نشر نہ ہوتا کہ زمان پارک نہ پہنچنے والوں کو ٹکٹیں نہیں ملیں گی تو پارٹی کے یہ وفادار دور سے بیٹھے تماشا دیکھتے رہتے۔ اب زمان پارک میں بیٹھ کر اپنے وڈیوز کلپ بنا رہے ہیں اور اس کیپشن کے ساتھ سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں کہ عمران خان کی کال پر لبیک کہتے ہوئے زمان پارک کی حفاظت کے لئے موجود ہیں۔
بہرحال یہ تحریک انصاف کی مقبولیت ہے جس کی وجہ سے کوئی پارٹی رہنما اُس کا ٹکٹ کھونا نہیں چاہتا یہ تو معلوم نہیں کہ زمان پارک میں حاضری لگانے کا کیا انتظام موجود ہے کیونکہ اگر عمران خان نے یہ کہا ہے کہ جو زمان پارک نہیں پہنچے گا اُسے ٹکٹ نہیں ملے گی،اس کے لئے حاضری رجسٹر کا ہونا تو ضروری ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ شاہ محمود قریشی تو جیل بھرو تحریک کے دوران شہیدوں میں نام لکھوا چکے ہیں لیکن زمان پارک میں جس قسم کی صورتِ حال ہے اور پولیس ایکشن کے بروقت امکانات موجود ہیں۔ کارکنوں کی طرف سے مزاحمت پر پولیس مقدمات بھی درج کر چکی ہے جن میں کسی کو بھی پکڑا جا سکتا ہے اس لئے گرفتاریوں کا امکان بہر طور موجود ہے۔ کیا ملتان سے لاہور جانے والے سابق ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار بشمول امیدوارانِ ٹکٹ اس کی تیاری کرکے گئے ہیں۔ چوری کھانے اور ڈنڈے کھانے میں بہت فرق ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی کے ان رہنماؤں کو بلانے کے لئے ٹکٹ نہ دینے کی دھمکی کیوں دینا پڑی، کیا اُنہیں خود معلوم نہیں تھا کہ پارٹی چیئرمین پر کڑا وقت آیا ہوا ہے وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے انسانی ڈھال استعمال کررہے ہیں،ایسے بہت سے پارٹی رہنما ہیں جو پہلے سے زمان پارک میں موجود ہیں اور اُنہیں کسی وارننگ کی وجہ سے وہاں نہیں آنا پڑا ایسے لوگ ہی پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ملتان سے درجنوں رہنما اس وارننگ کے بعد زمان پارک لاہو رپہنچ گئے، جبکہ زمان پارک کا معاملہ تو کئی دنوں سے چل رہا ہے۔ جو عمران خان سے محبت کرتے ہیں، وہ خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں سے بھی زمان پارک پہنچ گئے، انہوں نے سخت ترین پولیس ایکشن کا مقابلہ کیا۔ ملتان سے تو ڈیرہ غازی خان بازی لے گیا جہاں سے سابق وزیر مملکت زرتاج گل وزیر نے شیلنگ کے دوران ساری رات گزاری اور زمان پارک میں موجود رہیں۔ صبح اُن کی اس جرأت مندی کو کپتان نے بھرپور طریقے سے سراہا اور شاباش دی۔
پاکستان میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک پارٹی کا سربراہ گرفتاری نہیں دے رہا اور پوری ریاستی مشینری اُسے گرفتار کرنے پر لگی ہوئی ہے،یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پارٹی کے کارکن اُس کی ڈھال بنے ہوئے ہیں اور پولیس کی شیلنگ اور واٹرکینن کے پانی کا مقابلہ کررہے ہیں،ایسی قربانی کا تو کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں یا رہنماؤں نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں،یہ سیاست کا نیا رجحان ہے۔ اپنے قائد کو بچاؤ اور مراد پاؤ،ابھی دو دن پہلے ہی عمران خان نے زمان پارک میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بار وہ ٹکٹ خود دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 2018ء کے انتخابات میں بعض جگہوں پر ٹکٹ بیچے گئے تھے، اب سلسلہ اس لئے موقوف ہو جائے گا کہ جس نے جتنے زیادہ دن زمان پارک میں گزارے وہ اتنا ہی زیادہ ٹکٹ کا حقدار قرار پایا یہی وجہ ہے کہ ٹکٹوں کے متلاشی اب جوق در جوق زمان پارک کا طواف کر رہے ہیں۔ عموماً جب پارٹی پر مشکل گھڑی آئی ہو تو اس کے وابستگان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں،ویسے ماضی میں کسی پارٹی سربراہ نے یہ تکنیک استعمال بھی نہیں کی کہ وفاداری جانچنے کے لئے ذاتی حفاظت کا امتحان رکھ دیا ہو۔ نوازشریف جب لندن سے واپس آئے تھے تو ہوائی اڈے پر اُن کا استقبال کرنے کے لئے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکے تھے۔ وہ بھی یہ کڑی شرط کر دیتے کہ جو زیادہ بندے لائے گا اسے ٹکٹ ملے گا تو شاید وہاں کارکنوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے جو مقبولیت عمران خان اور تحریک انصاف کو اس وقت حاصل ہے، وہ نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کو اُس وقت حاصل نہیں تھی جب وہ لندن سے واپس آئے تھے۔ اصل میں سارا معاملہ ہی سیاسی مقبولیت ہے،اس وقت یہ تاثر موجود ہے کہ جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے گا لوگ اسے ووٹ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے لئے قربانی دینے کا جذبہ اُن ارکان اسمبلی میں بھی پروان چڑھ چکا ہے جو ہمیشہ قربانی سے کتنی کتراتے رہے ہیں۔ مستقبل میں اگر عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو یہی تکنیک اُس وقت بھی کام آئے گی اور احتجاج کے لئے زیادہ سے زیادہ بندے لانے کا ٹاسک ٹکٹوں کی تقسیم کا معیار بن جائے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے عمران خان نے سیاست میں نئے رجحانات متعارف کرائے ہیں اور ہنوز ان کا سلسلہ جاری ہے۔