لسانیات میں سب سے پہلے پروٹاگورس نے کام کیا،گرائمر کے اصول وضع کیے،مذکرو مؤنث کی تفریق کی

مصنف:لطیف جاوید
قسط:18
پروٹاگورس (Protagoras )
پروٹاگورس تھریس کے شہر ابیڈرا کا رہنے والا تھا۔ اس نے جوانی میں شہر شہر پھر کر تقریریں کیںاورخوب دولت کمائی۔کچھ عرصہ ایتھنز میں بھی رہا۔اس کی دیوتاؤں کے خلاف لکھی گئی ایک کتاب کو سرِ عام جلادیا گیا۔ دیوتاؤں کو نہ ماننے کے جرم میں غیض و غضب کا نشانہ بنا۔سسلی کی طرف جلاوطن ہونے پر مجبور ہوا۔ایک روایت کے مطابق وہ راستہ میں ہی پانی میں ڈوب کر دم توڑ گیا تھا۔
اس کا معرو ف مقولہ ہے کہ ” آدمی ہی ہر شئے کا پیمانہ ہے “۔ یعنی آدمی کے لئے جو شئے زہر ہے ” وہ زہرہے “ ۔اور جو شئے آدمی کے لئے زہر نہیں ۔ ” وہ زہر نہیں ہے“۔یہ بحث جاری ہے کہ یہاں پروٹاگورس کی آدمی سے مراد پوری نسلِ اِنسانی ہے یا صرف اِنفرادی طور پر ایک اِنسان۔
کہا جاتا ہے کہ لسانیات میں سب سے پہلے پروٹاگورس نے کام کیا۔گرائمر کے اصول وضع کئے۔مذکرو مؤنث کی تفریق کی،صرف و نحو کو اجاگر کیا۔فصاحت و بلاغت کے فن کی ترویج کی۔
پروڈیکس (Prodicus )
سوفسطائیت کا دوسرا معروف عالم پروڈیکس ہے۔ بڑا فصیح و بلیغ مقرر تھا۔ قناعت پسندی اس کا شعار تھا۔اس کا موت کے متعلق نظریہ زیادہ مقبول ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کو ہر وقت موت کی تمنّاکرنی چاہیے کیونکہ یہ دنیا کے غموں سے نجات دیتی ہے۔ اسی طرح موت کے متعلق اس کا ایک بہت مقبول نظریہ ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ موت سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جب ہم ہونگے تو موت نہیں ہوگی اور جب موت ہو گی تو ہم نہیں ہو نگے۔یہ زبان دانی کا بڑا ماہر تھا اِس نے مترادف الفاظ پر ایک رسالہ بھی لکھا۔
گورجیس (Gorgias )
گورجیس سسلی کے شہر لیونٹنی (Leontini)کا رہنے والا تھا۔سفیر کی حیثیت سے ایتھنز بھی آکر رہا۔اس کے 3 قابلِ غور نظریا ت ہیں ، جو کافی بحث طلب ہیں۔وہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔!
۰ کوئی شئے موجود نہیں اور نہ وجود میں آسکتی ہے۔اِ س پر وہ بڑی عجیب بحث کرتا ہے۔
۰ کسی شئے کا علم حاصل کرنا نا ممکن ہے۔
۰ علم کی ترویج اور اشاعت ممکن نہیںہے۔
گورجیس نے ایک رسالہ بھی On Not-being or Natureکے نام سے لکھا تھا۔
اب سوفسطائیت کے اثرات ایک نظر میں ملاحظہ ہو ں۔سوفسطائیت تو جلد دم توڑ گئی لیکن جاتے جاتے نسلِ انسانی پر گہرے اثرات چھوڑ گئی۔ مثلاً
۰ اِنہوں نے عقل کو عقیدہ پر برتری دینے پر زور دیا۔
۰ اِنہیں سے تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھا۔
۰ فنِ تقریر کی ترقی ہوئی۔
۰ لسانیات اور فصاحت و بلاغت نے فروغ پایا۔
۰ بحث میں منطقی دلائل پیش کرنے کا روا ج بڑھا۔
۰ حتمی علم عقل سے ملتا ہے یا حسّی ادر ا ک سے اس بحث کو خوب اچھالا۔
۰ اِن کی آزاد فکری نے فلسفہ پر گہرے اثرات چھوڑے۔
۰ اِنہوں نے فلسفہ کو یہ فکر دی کہ اِنسان کی حقیقت جانی جائے؟گویاسوفسطائیوں نے فلسفہ کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر دے ماراہے۔
۰ بلا شبہ سوفسطائیوں نے فلسفہ کو ایک نیا رخ دیا۔تھیلس سے انکسا غورس اورجواہرین تک تمام فلاسفہ کا موضوع مادہ اور مادی کائنات تھا۔اِ س تحریک نے یونانی فلسفہ کو اِنسان اور اخلاقیات پر لگا دیا۔ بعد میں آنے والے فلاسفہ اخلاقیات کو ہی اوّلیت دینے لگے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سو فسطائیت سے فلسفہ کواشاعت اور ترویج میں بھی فائدہ پہنچا کیونکہ اِنہوں نے اظہارِو بیان کی آزاد ی اور مدلّل بات کرنے کا کلچر پروان چڑھایا۔ جہاں تک فلسفیانہ فکر کاتعلق ہے ا ِس ضمن میں سو فسطائیت نے بڑی الجھنیں پیدا کیں۔ مثلاً سچ اور علم کے متعلق ان کے نظریات ملاحظہ ہوں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اِسی وجہ سے بعد میں آنے والے فلاسفہ کو اِن سے نظریاتی لڑائی لڑنا پڑی ۔ سقراط ساری عمر اِن کی مخالفت کرتا رہا۔
غیر حقیقی باتوں کو لفاظی وجوشِ خطابت سے سچ ثابت کرنے کا رواج شاید اِن لوگوں سے ہی پروان چڑھا تھا، جوبدقسمتی سے آج بھی میںموجودہے۔ میرے نزدیک بیسویں صدی عیسوی میں ترقی پسند وں نے نسلِ انسانی کو اس سوچ سے آزاد کرانے کے لئے جنم لیا ہے اور وہ اِس مشن میں کافی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔