سیکولراور نان سیکولر پارٹیاں

سیکولراور نان سیکولر پارٹیاں
سیکولراور نان سیکولر پارٹیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ سب دانشور مبارکباد کے مستحق ہیں،جو وطن عزیز میں گاہے بگاہے سیکولر اور نان سیکولر کی بحث چھیڑتے رہتے ہیں۔اس طرح وہ ان پارٹیوں کو لعن طعن بھی کرتے رہتے ہیں،جو ان کے بقول سیکولر ذہن رکھتی ہیں۔ایک دانشور تو خاص طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں جو مہینے میں دو تین بار نظریہءپاکستان پر کالم لکھتے ہیں اور اس کی آڑ میں سیکولر پارٹیوں اور افراد پر جی بھر کر غصہ نکالتے ہیں۔وہ چوٹی کے نامور وکلاءکی طرح یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں کہ سیکولر پارٹیاں اور افراد دراصل نظریہءپاکستان کے خلاف ہیں۔اسی طرح کے دیگر دانشور بھی سیکولر جماعتوں اور افراد کو لادین نظام کے علمبردار قرار دیتے ہیں۔ ان دانشوروں کے نظریات اور تحریک اب تیزی کے ساتھ کامیابی کے مراحل طے کررہی ہے اور ملک میں کچھ جماعتوں کو سیکولر اور کچھ کو نان سیکولر قرار دیا جا چکا ہے۔اگر ان حضرات کا بس چلے تو یہ آئین پاکستان میں بھی یہ ترمیم کرلیں کہ چونکہ یہ ملک اسلام نافذ کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا ، اس لئے وطن عزیز میں سیکولر جماعتوں پر پابندی لگنی چاہیے اور اگر ہو سکے تو انہیں لادین یا پھر قانونی طور پر اقلیت قرار دے دیا جائے۔

ابتدائی مراحل میں تو سیکولر اور نان سیکولر کی بحث اخباری کالموں، ٹیلی ویژن مباحثوں اور تاریخی کتب تک ہی محدود تھی، لیکن الیکشن 2013ءمیں قوم نے سیکولر اور نان سیکولر جماعتوں میں کی جانے والی تفریق کو اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا۔انتخابات میں کچھ جماعتوں کے نام لئے گئے کہ وہ سیکولر ہیں ، اس لحاظ سے مستوجب سزا ہیں اور انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بعدازاں اس بات کا عملی نمونہ اس وقت سامنے آیا،جب ان جماعتوں کی انتخابی مہم کو گولیوں اور بمبوں کا نشانہ بنایا گیا اور یہ انتخابی مہم چلانے کی بجائے جان بچانے کے چکر میں پڑی رہیں۔قیام پاکستان کا خواب بھی قومی شاعر حضرت علامہ اقبالؒ نے ہی دیکھا تھا اور نظریہءپاکستان ان ہی کی تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی تحریک کے پیچھے کوئی نظریہ یا دانشور موجود ہوتے ہیں۔ان نظریات سے عوام کو تحریک ملتی ہے اور وہ ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔


سیکولر اور نان سیکولر نظریات کی تحریک بھی کچھ دانشوروں نے شروع کی اور اس وقت یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے اور باقاعدہ طور پر کچھ جماعتوں کو سیکولر اور بعض کو نان سیکولر قرار دیا جا چکا ہے، لیکن جماعتوں میں اس تفریق کے سلسلے میں ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے، وہ یہ ہے کہ کس بنیاد پر کچھ جماعتوں کو سیکولر اور کچھ جماعتوں کو نان سیکولر قرار دیا گیا ہے؟....الیکشن 2013ءکے نتیجے میں جن جماعتوں کو کامیابی ملی ہے، انہیں نان سیکولر کی صف میں کھڑا کیاگیا تھا۔ان سیکولر جماعتوں میں سے صرف ایم کیو ایم کامیاب ہوئی ہے۔وہ بھی صوبہ سندھ کی حد تک۔اس جماعت کی تنظیم بھی اتنی مضبوط ہے کہ اسے سیکولر یا نان سیکولر کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور اس جماعت کے کارکن اس طرح کے اثرات قبول نہیں کرتے، جو جماعتیں اقتدار میں آئی ہیں اور جنہیں نان سیکولر کا خطابملا تھا اور جنہیں شکست فاش ہوئی ہے، ان میں اے این پی اور پاکستان پیپلزپارٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان جماعتوں کے منشور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان جماعتوں کے منشور کے مطالعے سے ان کے سیکولر یا نان سیکولر ہونے کا قطعاً کوئی گمان نہیں ہوتا۔ان جماعتوں کے چہرے مہرے،طرز عمل ،بودوباش ، مذہبی عبادات یا دیگر معاملات سے بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون سی جماعت سیکولر ہے اور کون سی جماعت نان سیکولر؟....آپ مسلم لیگ (ن) ہیکی مثال لے لیں۔یہ جماعت انڈیا کے ساتھ بہترین تعلقات کی حامی ہے۔بھارتی وزیراعظم نے نوازشریف کو بھارت آنے کی دعوت دی ہے اور نوازشریف نے بھی بھارتی وزیراعظم کو پاکستان مدعو کیا ہے۔نوازشریف نے فرمایا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کی استواری کا آغاز اسی سطح سے ہوگا،جہاں سے ان تعلقات کا اختتام کیا گیا تھا۔نوازشریف کے یہ تمام اقدامات بہترین ملکی مفاد میں ہیں اور ملکی ترقی کے لئے بے حد ضروری ہیں۔اس جماعت نے اقلیتوں کے حقوق پر بھی خصوصی توجہ دی ہے اور زیادہ تر اقلیتوں نے اسی پارٹی کو ووٹ دیئے ہیں۔

تحریک انصاف میں بہت سے لبرل افراد شامل ہیں، جن کا طرز زندگی مغربی ہے اور جو تنگ نظری سے کوسوں دور ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ تحریک انصاف والے نمازیں کتنی پڑھتے ہیں اور دیگر عبادات کتنی باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ان تمام خصوصیات کے باوجود یہ بات عجیب ہے کہ ان جماعتوں کو نان سیکولر کہا جاتا ہے،جبکہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو سیکولر جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے،جس کی انہیں سزا بھی دی جارہی ہے۔ایسے تمام دانشوروں اور کالم نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ نظریہءپاکستان کی وضاحت کرتے وقت اور سیکولر اور نان سیکولر کی بحث کے دوران وہ خصوصیات بھی تفصیل سے بیان کردیں جو ایک سیکولر جماعت یا فرد میں پائی جانی چاہئیں۔زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک کتاب تحریر کی جائے،جس میں سیکولر اور نان سیکولر افراد اور جماعتوں کی خصوصیات مفصل طور پر بیان کی جائیں۔ان خصوصیات اور وضاحت سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جو افراد خلوص نیت سے ان دانشوروں کی تفریق کو عملی جامہ پہنانے کے متمنی ہوں اور سیکولر حضرات اور جماعتوں کو سزا دینا چاہیں ، ان کے لئے آسانی پیدا ہو۔کوئی بے گناہ قابو میں نہ آئے اور اسے مفت میں جان سے ہاتھ دھونا نہ پڑے۔
 ہمارے دانشوروں نے وطن عزیز میں سیکولر ہونے کو جس قدر بڑا جرم قرار دیا ہوا ہے اور سیکولرازم کو نظریہءپاکستان سے سرکشی کے مترادف بنا دیا ہے۔اس کی وجہ سے نظریہءپاکستان پر خلوص نیت سے یقین رکھنے والے افراد ان افراد سے نفرت کرتے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، اگر کچھ افراد اس سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں اور سیکولر جماعتوں اور افراد کو سزا دینا چاہتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افراد کے لئے ایک معلوماتی گائیڈ لائن یا کتابچہ وغیرہ شائع کردیاجائے،جس میں سیکولر اور نان سیکولر جماعتوں اور کرداروں کے اوصاف اور خصوصیات بیان کردی جائیں تو قصور وار افراد کو سزا دینے میں آسانی ہوگی اور بیگناہ افراد یا جماعتیں مفت میں حملوں کی زد میں نہیں آئیں گی۔یہ بات نہایت ہی قرین انصاف ہے، کیونکہ کسی بیگناہ کو سزا دینا ایک غیر اسلامی فعل ہے، جس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔
امید ہے کہ ہمارے دانشور جو سیکولر حضرات کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں ، اس تجویز پر خلوص نیت سے غور کریں گے۔ اس گائیڈ لائن یا کتابچے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو جماعتیں یا افراد سیکولرازم کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔نان سیکولر کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو ان کی بھرپور رہنمائی کی جا سکے گی، تاکہ وہ اپنے نظریات سے توبہ کریں اور نان سیکولر بن جائیں، توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں کئے جانے چاہئیں، جب طلاق دینے کے بعد دوبارہ رجوع کرنے کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے، گناہ کبیرہ کرنے کے بعد توبہ کی جا سکتی ہے تو پھر سیکولر نظریات کی حامل جماعتوں یا افراد کو نان سیکولر بننے کے مواقع فراہم کرنے میں کیا حرج ہے۔ سیکولر اور نان سیکولر افراد کی تفریق پیدا کرنے والے ممتاز دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور جس دانشور نے سیکولر افراد پر زیادہ لعن طعن کی ہو، انہیں مذہب بیزار، لادین، نظریہءپاکستان کا مخالف ثابت کیا ہو، اسے اس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے تاکہ مطلوبہ کتابچے کو جامع و مفصل بنانے کے ساتھ ساتھ اسے تاریخی حوالوں سے بھی مزین کیا جا سکے۔

مزید :

کالم -