الیکشن، دھاندلی اور میڈیا!
الیکشن کا بخار تو اُتر گیا، لیکن غبار بھی باقی ہے، یہ غبار اس وقت تک باقی رہے گا، جب تک احتجاج کرنے والوں کو یہ تسلی نہیں ہو جاتی کہ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کا کچھ علاج ہوگیا ہے۔ یہ علاج کوئی اتنا آسان نہیں ہے، جتنا ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت کے ماڈرن کارکنوں کے خیال میں ہے۔ہر بار صاف، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن ہر الیکشن کی شفافیت بعد میں ایک سوالیہ نشان چھوڑجاتی رہی۔ یہ غبار کچھ عرصے اَڑتا اَڑتا بالآخر ختم ہوگیا.... اس مرتبہ فضا ذرا مختلف دکھائی دیتی ہے، صرف عروس البلاد کراچی ہی نہیں، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، حیدر آباد، فیصل آباد، گجرات، جھنگ، قصور، نارووال،خیر پختونخوا کے کئی شہروں، جیکب آباد، کوئٹہ اور دیگر کئی علاقوں میں ایک دوسرے پر مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ان سب الزامات کے شور میں کراچی اور لاہور سے اُٹھنے والی آوازیں زیادہ بلند ہیں۔ کراچی میں انتخابی عملے کا غائب ہونا، کئی جگہوں پر پولنگ کا تاخیر سے شروع ہونا، جاری پولنگ کو مداخلت کروا کے رُکوا دینا، پولنگ سٹیشنوں کے دروازے بند کر دینا، اکثر پولنگ سٹیشنوں پر ٹھپا مافیا کا راج ہونا، خواتین کی بے حُرمتی ہونا، پولنگ کے بعد ووٹوں کی گِنتی میں بددیانتی کا مظاہرہ ہونا اور نتائج کا تاخیر سے آنا۔ غرض قدم قدم پر گدلاہٹ، جانبداری اور دھاندلی کے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
ان سبھی مظاہروں کے باوجود ہم ایک روشن خیال قوم کی طرح یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ چلیں ان حالات میں الیکشن کا ہوجانا ہی بہت بڑا کارنامہ ہے۔ تین صوبوں میں تو دھماکے ہو رہے تھے، لہٰذا یہ طِفل تسلی ان سیاسی لیڈروں اور ووٹروں کو نہیں دی جا سکتی ہے، جن کو اپنی کامیابی کا حد سے زیادہ یقین تھا۔ جن سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو کامیابی عطا ہوگئی ہے، وہ اور ان کے حامی ووٹروں کا کہنا ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ الیکشن بہت صاف، شفاف ہوئے۔ ہارنے والوں کو اپنی شکست تسلیم کرنی چاہئے....دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سبھی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف دھاندلیوں کے ثبوت پیش کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں اوران کے مینڈیٹ کو ٹھپا مینڈیٹ قرار دے رہی ہیں، لیکن یہ سارا نزلہ بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان پر ہی گِر رہا ہے۔
2013ءکے حالیہ الیکشن میں کچھ باتیں بہت امتیازی اور مثبت تھیں، مثلاً خواتین اور نوجوانوں کا بہت متحرک ہونا اور تقریباً 60 فیصد ٹرن آو¿ٹ ہونا، جن میں سرِ فہرست ہے۔ تصویر کا دُوسرا رُخ یہ ہے کہ انہی خواتین اور نوجوانوں کی اکثریت یہ کہتی سُنی جا رہی ہے کہ ووٹ تو ہم نے کسی اور کو دیا تھا، لیکن کامیابی کا اعلان کسی اور کا ہوگیا ہے۔
مشترکہ قسم کی ایک مبینہ دھاندلی جو اکثر سامنے آئی ہے وہ ایک ہی با اثر فرد کی طرف سے سینکڑوں افراد کے انگوٹھے لگانا ہے۔ اس دھاندلی کی شناخت اور تصدیق فِنگر پرنٹس اعلیٰ تحقیقاتی اداروں سے ہو سکتی ہے۔ مشترکہ قسم کی دوسری مبینہ دھاندلی ووٹوں کی غلط گِنتی ہے۔ اس عمل کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات سے بھی کافی پول کُھل جائیں گے۔
ایسی فضا میں جمہوریت اور الیکشن کے خلاف اعتراض کرنے والے اور اسے خلافِ اسلام اور حرام قرار دینے والے اور زیادہ شیر ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما کروڑوں روپے ہر الیکشن کی نذر کر دیتے ہیں۔ اکثر سیاسی رہنما الیکشن اخراجات کی جھوٹی تفاصیل جمع کروا دیتے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جس کے قدم قدم پر جھوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پھر کون ہے جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا اُترتا ہے۔ سیاسی رہنما نے الیکشن کمیشن کے دفتر میں صرف کاغذی کارروائی مکمل کرنا ہوتی ہے۔ اس کے وہ ماہر ہو چکے ہیں۔ معترضین کہتے ہیں کہ اگر قوم کے یہ غم خوار یہی کروڑوں روپے غریب عوام کی فلاح و بہبود پر لگائیں۔ ان کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر لگائیں۔ غریبوں کے بچوں کو مفت یا سستی تعلیم دینے پر یہی رقم خرچ کی جائے۔ کئی نادار، غریب، یتیم اور بیوہ دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں اور امرائ، شرفاءجمہوریت کے کھیل سے لُطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کیا اس سے طبقاتی تقسیم اور نفرت میں اور اضافہ نہیں ہو رہا۔ ان کے خیال میں الیکشن بھی عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔
ٹی وی چینلوں پر الیکشن نتائج پر تبصرے اور تجزئیے کرنے والے بھی بہت دلچسپ ماہرین تھے۔ ملک کے سب سے بڑے نیوز چینل کے ماہرین نے تو کمال کر دیا۔ اکثر کی سیاسی وابستگی اس کے لفظ لفظ سے ٹپک رہی تھی۔ کوئی مکمل رزلٹ آنے سے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ قوم نے تبدیلی کے ایجنڈے کو پذیرائی بخشی ہے اور خدمت کے ایجنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد آنے والے انتخابی نتائج نے اس نام نہاد دانشور کی یہ بات یکسر غلط ثابت کر دی۔ ایسی دانشوری سے عام ناظرین نے یقیناً حیرت و استعجاب کا اظہار کیا۔ پیپلز پارٹی کے حامی تجزیہ نگار اپنی پارٹی کی بُری طرح شکست ہوتی دیکھ کر صرف طالبان کو لعن طعن کرنے میں مصروف ہوگئے، حالانکہ ان کو پانچ سالہ قبضے اور کرپشن کا حساب لینے کی بات کرنی چاہئے تھی۔ کچھ یہی حال دھاندلی پر تجزیہ نگاروں کا ابتدائی احتجاج کرنے کا تھا۔ نادیدہ قوتوں نے ان کے لہجے میں بہت جلد نہ صرف تبدیلی پیدا کر دی۔