نئی حکومت کے سامنے کٹھن راہیں!

نئی حکومت کے سامنے کٹھن راہیں!
نئی حکومت کے سامنے کٹھن راہیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم میںسے زیادہ تر، خاص طور پر مَیں، ملک کی سیاسی صورت ِ حال کو سمجھنے میں غلطی کر گئے کیونکہ نہ تو عمران خان کا تبدیلی کانعرہ سونامی میں تبدیل ہوا اور نہ ہی ، جیسا کہ انتخابات سے پہلے سیاسی پنڈٹوں کا خیال تھا، معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روایتی دانشوری اور زمینی حقائق اکثر اوقات ایک دوسرے سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ اب جبکہ تمام منظر سامنے ہے آصف علی زرداری کی کرم نوازی سے پی پی پی کا پنجاب سے تقریباً صفایا ہو چکا ہے، مسلم لیگ(ق) تحلیل ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، جبکہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے نے وہ اثر نہیں دکھایا، جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اس عالم میں مسلم لیگ (ن) کا راستہ کون روک سکتا تھا ؟ اس نے پانچ دریاﺅںکی سرزمین میں عملاً تمام پارٹیوںکو روند کر رکھ دیا۔ یہاں اسے ایک مرتبہ پھر بھاری بھرکم مینڈیٹ ملا ہے ، تاہم اس کا حجم 1997 ءمیں ملنے والی حمایت سے قدرے کم ہے۔
اُس بھاری مینڈیٹ کی کچھ تکلیف دہ یادیں ذہن میں موجود ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اُس وقت چھ ماہ کے قلیل عرصے میں ہی بھاری مینڈیٹ کے سراب کو حقائق کی تمازت محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی، جبکہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کے لئے میاں نواز شریف کا وقت صدر ِ مملکت، چیف جسٹس اور آرمی چیف کے ساتھ غیر ضروری تناﺅ کی نذر ہو گیا۔ جو وقت اُس جنگ و جدل سے بچ رہتا، وہ زیر ِ تعمیر موٹر وے کے معائنے میں گزر جاتا، تاہم یہ سب کچھ چل رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ سلسلہ چلتا رہتا ، اگر کارگل کا مسئلہ پیش نہ آتا، تاہم خوش قسمتی سے اب مزید کسی کارگل کی گنجائش نہیںہے، جبکہ دفاعی ادارو ں کی توجہ دشمن نمبر ایک، طالبان پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری حکومت کی کامیابی کے لئے حالات سازگار ہیں، لیکن کارکردگی بہر حال ایک سوالیہ نشان رہے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تاریخ خود کو دہراتی ہے یا میاں نواز شریف ایک نئی تاریخ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ آج ایک نئی تاریخ لکھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ماضی کے مسائل سر نہ اُٹھائیں اور قائم ہونے والی حکومت اس بات کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ پاکستان کو درپیش سنگین مسائل کے ہوتے ہوئے اُن کو کھیل تماشوںمیں وقت اور توانائی ضائع کرنے والی حماقتوں، جیسا کہ لیپ ٹاپ تقسیم کرنا،میٹرو بس سروس اور موٹر وے جیسے منصوبے بنانا، سے احتراز کرنا اور پاکستا ن کو نئی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا۔ یہ سب اچھے کام ہیں،لیکن صرف یہی نہیں، بلکہ کرنے کو کچھ اور ناگزیر کام بھی ہیں۔ اس وقت انتہا پسندی، توانائی کا بحران اور بیمار معیشت پاکستان کے سنگین ترین مسائل ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کسی اور طرف حکومت کا دھیان جانا ہی نہیں چاہئے۔
 مفادات کا ٹکراﺅہمارے ہاں ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور یہ بے حد پیچیدگی اختیار کر چکا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات ذہن میں بٹھانے کی ہے کہ اگر آپ حکومت میں ہیں تو آپ اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے فیکٹریوں کی تعداد نہیں بڑھا سکتے ۔ نواز شریف خاندان پر ماضی میں یہ الزام بھی لگا تھا کہ جب وہ اقتدار میں تھے، اُنہوںنے نئی فیکٹریاں لگائیں ، تاہم اب ماضی کو دفن کر تے ہوئے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے کہ آئندہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے ، ورنہ افواہ سازی کے وصف میں اس عالم ِ فانی میں ہمارا کوئی ثانی نہیںہے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر شریف خاندان کے ذمے واجب الادا کوئی بنک قرضہ( ہو سکتا ہے کہ کوئی بیس سال پرانا کھاتہ نکل ہی آئے) ہے تو اسے پہلے ادا کر لیا جائے تاکہ ایک اچھی ابتداءکی جا سکے ، کیو نکہ اگر آپ اپنے ہم وطنوںسے ایمانداری اور حب الوطنی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پھر ”اول خویش“ والے محاورے پر عمل کیجیے، تاہم اگر ہم اپنی سیاسی قدروں پر نگاہ ڈالیںتو ایسا ہونا ناممکنا ت میںسے لگتا ہے، چنانچہ اس ضمن میں لب سیتے ہوئے دل میں خاموش دعا کا ورد جاری رہے کہ یہ معاملہ اب دبا رہے اور یہ کہ مزید قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔

اسی طرح دعا ہے کہ اصغر خان کیس بھی طاق ِ نسیاںمیںہی پڑا رہے ،کیونکہ ہماری فاضل عدالتیں بارہا یہ ثابت کر چکی ہیںکہ کچھ کیسوں پر تو قانون تیزی سے حرکت میں آتا ہے، جبکہ کچھ کو دیکھ کر اس پر سستی کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے۔ یہ امتیاز کرنا صرف قانون کا ہی استحقاق ہے ، کسی ہماشما کی اس میں دخل دینے کی مجال نہیں، تاہم اس وقت ان قباحتوں کو بھی فراموش کر دیں، ورنہ تمام وقت ماضی کو درست کرنے میں ہی لگ جائے گا۔ اس وقت نواز شریف پہلے سے بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ اس وقت وہ جتنے پُراعتماد اور بااختیار دکھائی دے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے کسی وزیر اعظم کو اتنا پُرا عتماد نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ آج اُن کو اتنی قوی اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں، جتنا ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو تھا۔ اب جبکہ میاں نواز شریف حکومت کو دفاعی اداروں، جو طالبان کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، اپوزیشن اور عدلیہ (توقع ہے کہ اب سوﺅ موتو نوٹس کم لئے جائیں گے) کی طرف سے کوئی دباﺅ نہیںہو گا ، کارکردگی نہ دکھانے کا کوئی جواز باقی نہیںہو گا۔اگر وہ کارکردگی دکھاتے ہیں تو ان کے پاس موقع ہو گا کہ وہ ایک مستقل حکمران جماعت بن جائیں ، جیسا کہ ملائیشیا اور ترکی میںہے۔ اگرایسا نہ ہوا تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اورشاید دوبارہ ایسا موقع نہ ملے۔
کیاکسی سیاسی رہنما کے لئے جسمانی طور پر لیڈر دکھائی دینا ضروری ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس سے اثر پڑتا ہے۔ جسمانی ہیت کے اعتبارسے ذوالفقار علی بھٹوصاحب دیکھنے میں ذہین و فطین نظر آتے تھے اور یہ شاید اُن کی والدہ کے ہندوآباﺅاجداد کا اثر تھا ، یا شاید سر شاہنوز بھٹو کا، مَیں اس پر حتمی طور پر کچھ نہیںکہہ سکتا۔ بے نظیر بھٹو بھی جاذب نظر شخصیت کی مالک تھیں، لیکن وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھٹوخاندان سے مختلف تھیں۔ جب وہ 1986 میں وطن واپس آئیں تو لوگ اُن کی پُرکشش شخصیت کے سحر میں کھو گئے۔ اس وقت دونوں شریف برادران، جن کو وقت نے عظیم رہنماﺅںکی صف میں لا کھڑا کیا ہے، کو اُس فنکار کا بھی ممنون ہونا چاہئے، جس نے بڑی مہارت سے اُن کے سر پر بال لگائے ہیں۔ ہٹلر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر اُن کا نام ایڈولف ہٹلر کی بجائے کچھ اور ہوتا یا اُن کے سر پر گھنے بال نہ ہوتے یا وہ سرے سے ”فارغ البال “ ہوتے تو کیا وہ پھر بھی ایسے ہی سخت گیرآمر ہوتے ؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہ ہوتا۔ بہرحال جہاں تک شریف برادران کے لندن سے مصنوعی بال لگوانے کا تعلق ہے تو نظر یہی آتاہے کہ اس عمل نے ان کا لہجہ اور طرز ِ عمل بدل دیا ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کے بھائی کو پاکستان کی تاریخ کے خوش قسمت ترین سیاست دان کہا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ جن حالات میں آگے آئے ہیں، وہاں بہت سے لوگ ناکامیوں سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ پہلے ان کی تربیت خفیہ اداروں، جنرل حمید گل کی رہنمائی میں ان کی درسگاہ میںہوئی ، لیکن جب اُنہوں نے 1993 ءمیں صدر غلام اسحاق کو چیلنج کیا، اُنہوںنے تبدیلی کی راہ اپنالی، تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ خفیہ اداروںکی خواہش تھی کہ پی پی پی کو کم از کم پنجاب سے نکال دیا جائے ۔ یہ حکمت ِ عملی کافی کامیاب رہی ہے، کیونکہ مرکز میں جس کی حکومت بنے، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گرفت مضبوط رہتی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب پر ہمیشہ کے لئے ان کی حکومت طے ہو چکی ہے۔ اس تمام سفر میں ، میاں نواز شریف نے خود کو کافی بدل لیا ہے اور اُنہیں اس بات کا کریڈیٹ دینا پڑے گا۔ اب جبکہ اُن کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ، یہ دیکھا جاناہے کہ اب وہ انتہا پسندی سے کس طرح نمٹیںگے ؟اس وقت ، جبکہ ملک کو ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، ہم ان کے لئے دعا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں اور ا س ملک کو مسائل کے انبار سے نکالیں۔ یہ وقت بھاری بھرکم ضیافتیں اُڑانے کا نہیں اور جو خوش قسمت نواز شریف کے ہاں لنچ کر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پُرتکلف انواع و اقسام کے کھانوں ، جس میں بھنی ہوئی مچھلی ضرور ہوتی ہے، کے بعد کچھ کرنے کی تاب نہیں رہتی۔
پس ِ تحریر: مجھے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن مَیں نے کیا اور مسترد کر دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے پارٹی کے حوالے سے تنقیدی مضامین نہیں لکھنے چاہیں تھے، مگر مَیں نے لکھے۔ اس سے بد مزگی پیداہوئی ، کیونکہ کچھ افراد نے اسے ”انگور کھٹے ہیں“ کے مترادف سمجھا ، حالانکہ مَیں بطور صحافی مسلم لیگ(ن) پر اُس وقت بھی تنقید کرتا تھا، جب مَیں اس کی ٹکٹ پر ایم این اے تھا، تاہم جو بھی ہوا، مجھے اس پر افسوس ہے۔

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -