بھارتی وزیراعظم کا دورۂ چین۔۔۔۔۔۔ چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ!
عرفان یوسف
نریندر مودی کے دورہ چین کے آغاز پر چینی سرکاری میڈیا نے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا دیا، انڈین نقشے سے کشمیر اور ارونا چل پردیش غائب، نقشہ دیکھ کرمودی کی ہوائیاں اڑ گئیں۔گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جمعرات کو چین کے تین روزہ سرکاری دورے پر چین کے صوبے ژان شانکسی صوبے پہنچے جہاں چینی صدر شی چن پنگ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر چین کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھارت کا اصلی نقشہ پیش کردیا جس میں کشمیر اور ارونا چل پردیش غائب تھے۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے جبکہ چین کا دعویٰ ہے کہ ارونا چل پردیش اس کا علاقہ ہے اور بھارت نے غیر قانونی طورپر اپنے پاس رکھا ہوا ہے جبکہ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ اقصائے چین کا علاقہ انڈیا کا ہے اور چین نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے دونوں ملک1962 میں اس تنازعہ پر لڑائی بھی کرچکے ہیں۔چین کے پاس مختف فنڈز میں تقریباً چار کھرب ڈالر زرِ مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اس لیے چین کے پاس خرچ کرنے کے لیے بہت رقم پڑی ہوئی ہے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں حالیہ کمی کے باوجود بہت سے ترقی یافتہ ممالک سات فیصد ترقی کی شرح کا تو صرف خواب ہی دیکھتے ہیں اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دس برسوں میں بیرون ممالک میں سالانہ چینی سرمایہ کاری آٹھ گنا بڑھ کر 2013 میں 140 ارب ڈالر پر پہنچ گئی تھی حیران کن طور پر 2014 میں اس میں معمولی سی کمی واقع ہوئی اور سال کے پہلے حصے میں گذشتہ سال کی نسبت کم سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی۔ اس کی بڑی وجہ توانائی کے نصوبوں میں کم سرمایہ کاری تھی لیکن یہ کمی عارضی نظر آتی ہے اور اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ چین کی آبادی خصوصاً متوسط طبقے میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ چین کی وسائل کو استعمال کرنے کی بھوک بڑھتی رہے گی
بھارتی وزیِرِاعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت چین پہنچے ہیں جب ان کے میزبان ایشیا کے نقشے کو بدلنے کے ایک بہت بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بڑی تندھی سے مصروف ہیں چینی وزیرِ خارجہ اس منصوبے کو ایک ’چینی گردباد‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جبکہ صدر شی جنگ پنگ اس حوالے سے ’چینی دورِ نو‘ کے خواب کی باتیں کر رہے ہیں چین کے ان بڑے خوابوں کو بیجنگ میں جن سادہ الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے وہ ہیں ’خطے کے ممالک کے درمیان مکمل ربط‘یعنی چین سرمایہ کاری، تجارت، سفارت کاری اور مالیات کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھانا چاہتا ہے جس میں ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ چین کی باہوں میں سمٹ آئے صدر شی کہتے ہیں چین ایک ’پرامن، ملسنار اور مہذب شیرہے چینی رہنما جس ’چینی بگولے‘ کی بات کر رہے ہیں اس کی بنیاد چار ٹریلین ڈالر کی وہ خطیر رقم ہے جو چین نے فارن ایکسچینج کی مد میں کما رکھی ہے حال ہی میں وجود میں آنے والا ’ایشیئن انفراسٹرکچر بینک‘ اور چین کی سربراہی میں بننے والے دیگر مالیاتی ادارے آئندہ برسوں میں سبک رفتار ریل گاڑیوں، ایندھن کی پائپ لائینوں، سڑکوں، بندرگاہوں اور صنعتی پارکوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
بھارت کی خواہش ہوگی کہ وہ چین کی سرمائے اور منصوبوں کی تعمیر میں اْس کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھائے گذشتہ دہائی میں امریکہ وہ ملک ہے جس کو چین سے سب سے زیادہ پیسہ ملا، اس سے قبل کی دہائی میں آسٹریلیا کو سب سے زیادہ پیسہ دیا گیا تھاتاہم گذشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں چین نے برطانیہ میں امریکہ کے برابر ہی سرمایہ کاری کی اور 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے حوالے سے برطانیہ چین کا پسندیدہ ملک بنا جو کہ فرانس میں 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے چین نے ساری دنیا میں سرمایہ کاری کی ہے اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں لیکن افریقہ میں اس کی دلچسپی زیادہ رہی ہے۔ چین نے افریقہ کے 34 ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے جس میں صرف نائجیریا میں ہی 21 ارب ڈالر لگائے گئے ہیں یتھوپیا اور الجیریا میں 15 ارب ڈالر سے زیادہ جبکہ انگولا اور جنوبی افریقہ میں دونوں میں دس، دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اس کی صاف وجہ افریقہ کے قدرتی وسائل ہے چین کی سات فیصد ترقی کی شرح کا ترقی یافتہ ممالک خواب ہی دیکھ سکتے ہیں دوسری طرف جاپان کے ساتھ سیاسی تناؤ کی وجہ سے چین نے جتنے پیسے کی منگولیا میں (1.4 ارب ڈالر) سرمایہ کاری کی تقریباً اتنے ہی جاپان (1.6ارب ڈالر) میں گائے۔ اس نے حال ہی میں دنیا کی سب سے طاقتور معیشتوں کی صف میں جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے چین کو وسائل چاہییں، خصوصاً توانائی کی مانگ پورے کرنے کے لیے، جو کہ توقع ہے کہ 2050 تک تین گنا بڑھ جائے گی اسی وجہ سے 2005 سے توانائی کے شعبے میں دوسرے شعبوں کی نسبت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ چین کی آبادی کے لیے جو اس وقت 1.4 ارب ہے، اس شعبے میں 400 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں تاہم گذشتہ برس توانائی اور ٹرانسپورٹ، پراپرٹی اور ٹیکنالوجی جیسے دیگر کئی شعبوں میں کم سرمایہ کاری کی گئی۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور اس میں زیادہ تر سرکاری کمپنیاں غالب ہوتی ہیں، سو اس عارضی خاموشی کا مطلب ہے کہ سرکاری سرمایہ کاری کم جبکہ نجی سرمایہ کاری زیادہ ہوئی دھاتوں میں سرمایہ کاری بھی بہت اہم ہے کیونکہ ان کی تعمیراتی منصوبوں اور صنعتوں میں بہت ضرورت ہوتی ہے چینی ریاست نے انفرادی کمپنیوں اور منصوبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، جن میں سے زیادہ تر توانائی کے شعبے میں ہیں مثال کے طور پر سی این او او سی کو ہی لے لیں جس نے 2013 میں کینیڈا کی نیکسن پر 15 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں توانائی اور وسائل کے علاوہ فائنانس یا مالیات میں بھی کافی زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے اور مورگن سٹینلے اور سٹینڈرڈ بینک چینی سرمائے کے سب سے بڑے وصول کنندہ بنے ہیں اس کے علاوہ چین نے آئی بی ایم سے لے کر بارکلیز، فورڈ اور جنرل موٹرز تک میں سرمایہ کاری کی ہے 24 اکتوبر سنہ 2014 کو ایشیا کے 21 ممالک نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کر دیے تھے جس کے تحت چین کی سربراہی میں ایک بینک بنایا جائے گا جس کا صدر دفتر بیجنگ میں ہوگابھارت کی خواہش ہوگی کہ وہ چین کی سرمائے اور منصوبوں کی تعمیر میں اْس کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھائے توقع ہے کہ اس بینک کی تکمیل سنہ 2015 کے آخر تک ہو جائیگی اور یہ ادارہ ایشیا میں ایسے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا جن کے تحت نئی سڑکیں، بندرگاہیں، ریل کی پٹریاں اور ذرائع آمد ورفت کے دیگر وسائل تعمیر کیے جائے گے۔ 15 اپریل 2015 تک اس بینک کی بانی رکنیت کے لیے 57 درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن میں 37 ایشیا سے آئیں جبکہ 20 ممالک ایسے ہیں جو خطے سے باہر ہیں خطے سے باہر سے آنے والی درخواستوں میں آسٹریا، برازیل، ڈنمارک، مصر، فرانس، جرمنی، آئس لینڈ، اٹلی، لگسمبرگ، مالٹا، ہالینڈ، ناروے، پولینڈ، پرتگال، جنوبی افریقہ، سپین، سویڈن اور برطانیہ شامل ہیں گذشتہ ستمبر میں صدر شی جب انڈیا گئے تھے تو اس وقت مسٹر مودی کو اقتدار سنبھالے صرف چار ماہ ہوئے تھے۔ اس لیے دونوں کی اس وقت کی ملاقات اور گپ شپ کو ایک نئے رشتے کا ہنی مون کہنا غلط نہ ہوگااس ہنی مون میں دونوں نے معاشی تعاون کے کئی منصوبوں کا اعلان کیا جن میں چین کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی آٹھ ماہ گزرنے کے بعد اگر دیکھا جائے تو ان منصوبوں پر پیشرفت سست رہی ہے چینی سرمایہ کاروں کو شکایت ہے کہ اس تاخیر کی وجہ بھارت کا سرخ فیتہ ہے جبکہ بھارتی برآمدکندگان کہتے ہیں کہ چین کا درآمدات کا نظام رکاٹوں کا شکار ہے اگرچہ بھارت کی شرح نمو میں اضافہ ہو رہا اور چین کی شرح نمو کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن بھارت کی معیشت کا حجم چینی معیشت سے بہت ہی کم ہے اور بھارت ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کے لیے آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں اپنی انتخابی مہم کے دوران مسٹر مودی اپنے ہاں تیز معاشی ترقی کی نوید سناتے رہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو بھارت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ’میک اِن انڈیا‘ کی نعرہ بھی لگاتے رہے، لیکن چینی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں زمینی حقائق میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسٹر مودی بھارت کی تیز معاشی ترقی کی نوید سناتے رہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو بھارت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ’میک اِن انڈیا‘ کا نعرہ بھی لگاتے رہے، لیکن چینی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں زمینی حقائق میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن دوسری جانب ’چینی گردباد‘ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور دن بدن طاقتور ہوتا جا رہا ہے بھارت کے شمال میں ’شاہراہِ ریشم کی معاشی راہداری‘ کے منصوبے کے تحت چین کے پاس ذرائع آمدورفت، تجارت اورسٹریٹیجک اثاثوں کا ایک ایسا جال بنانے کا منصوبہ ہے جس کا سلسلہ وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوگا۔ دوسری جانب بھارت کے جنوب میں چین کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ اپنی ’ساحلی شاہراہِ ریشم‘ کو بحرِہند کے دوسرے کنارے تک لے جائے گایکھتے ہی دیکھتے سری لنکا، مالدیپ اور سیشیلز میں چین بہت زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے سی طرح وہ نیپال اور بھوٹان میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جو روایتی طور پر بھارت کے حلق? اثر میں رہے ہیں اس کے علاوہ چینی صدر گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں انھوں نے سڑکوں، ریلوے اور توانائی کے منصبوں میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی سٹریٹیجک شراکت داری کی نوید بھی سنائی جو بدلتے موسموں سے متاثر نہیں ہوگی۔