اگر میں تحریک انصاف کا حصہ بنا رہتا
اگر میں تحریک انصاف کا حصہ بنا رہتا توموجودہ آئین کی افادیت کو چیلنج کرنامیرے لئے ممکن نہ ہوتا۔
پاکستان کو اپنے مستقبل کا انتظار ہے اور میری دانش، میری چھٹی حس، میری آگہی اور میری تجربات بھری زندگی کہتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس آئین میں نہیں جو ایک ایسے طبقے کو اقتدار میں آنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے،جس کی واحد کوالیفکیشن ا سکی دولت اور اثر ورسوخ ہے۔بابائے قوم نے تحریری طور پر قوم کو آگاہ کر دیا تھا کہ تمہیں صدارتی نظام کی ضرورت ہے، جو تمہیں براہ راست اپنے ووٹوں کی قوت سے اپنی قیادت منتخب کرنے کی ضمانت دے گا۔جناب بھٹو بھی ذاتی طور پر اسی نظام میں پاکستان کا مستقبل دیکھتے تھے،لیکن انہوں نے نام نہاد Electables یعنی مقامی وڈیروں، چودھریوں، نوابوں، نوابزادوں سرداروں اورخوانین کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
پاکستان اُس نام نہاد اشرافیہ کی بے پناہ طاقت کی چکی میں پس رہا ہے، جسے واقفانِ حال اور دل جلے بدمعاشیہ کا نام دے چکے ہیں۔
میں نے یہ موضوع آج اس لئے چُنا ہے کہ آئندہ دنوں میں اْن اسباب پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جو تحریک انصاف میں میرے فعال کردار کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو جس قسم کی قیادت کی ضرورت ہے اس کے تقاضوں پر بڑی حد تک صرف عمران خان پورے اترتے ہیں۔ لیکن ریتلی زمین میں لہلاتے کھیت اگانا شاید عمران خان کے بھی بس کی بات نہیں ہوگی۔ یہ نظام اور یہ آئین ریتلی زمین کی مانند ہے۔
عمران خان کے پاس ابھی بڑا وقت ہے۔ وہ دس برس بعد بھی اسی طرح جوان ہوں گے۔ مگر وقت ریت کی طرح میرے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ جتنا وقت میرے پاس باقی ہے اس میں اگر میں پاکستان کے مستقبل کا خاکہ اپنے آنے والے قائدین کے سامنے رکھ جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ انصاف کیا۔’’ایک قوم تحریک‘‘ کی بنیاد میں اسی مقصد کے لئے رکھنا چاہتا ہوں۔اگر میں تحریک انصاف کا حصہ بنا رہتا تو موجودہ آئین کی افادیت کو چیلنج کرنا میرے لئے ممکن نہ ہوتا۔میرا ارادہ ہے کہ ماہِ رمضان کے بعد اس ضمن میں ایک پریس کانفرنس کروں گا جس میں اس تحریک کے اغراض ومقاصد لٹریچر کی صورت میں سامنے لاؤں گا۔مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آنے والے ادوار میں قیادت کا منصب سنبھالنے والوں کے لئے مفید ثابت ہوگی۔