یوسی پی میں مذہبی رواداری میں میڈیا کا کردار کے موضوع پرسیمینار
لاہور(ایجوکیشن رپورٹر)سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں مذہبی رواداری میں میڈیا کردار کے موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں سینئر کالم نگار اور گروپ ایڈیٹر روزنامہ 92نیوز ارشاد احمد عارف ،معروف مذہبی سکالر علامہ راغب نعیمی ،سینئر کالم نگار قیوم نظامی ،ڈین فیکلٹی سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز یو سی پی ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ،ایڈیٹر کوارڈینیشن دی نیشن عمانویل سرفراز نے خطاب کیا۔جبکہ سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز میں ایم فل پارٹ ٹو کے سینئر اساتذہ ڈاکٹرشفیق جالندھری ،قمر غزنوی اور ندیم زعیم سیمینار میں ایم فل پارٹ ٹو کی طالبات ،ارم نواز،نورا لعین ناصر،سبین جاوید ،آمنہ کاشف فائقہ پرویز ،اور زوبیہ شفیق سمیت دیگر طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ سیمینار کا اہتمام آمنہ منور قریشی نے کیاتھا، تقریب سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ موجودہ الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں میڈیا ہاؤسز کو چاہئے کہ انتہا پسندی اور فرقہ وارایت کو رد کرتے ہوئے مذہبی روا داری اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ۔ارشاد احمد عارف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مادر پدر آزاد میڈیا کا مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے حوالے سے کردار انتہائی مایوس کن ہے ۔میڈیا ہاوسز میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو چاہئے کہ فرقہ وارانہ اور مسلکی ایشوز کو نہ چھیڑا جائے ۔الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کو بہت شعور عطا کیا ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا میں مختلف مکتبہ فکر کے علماء کو بٹھا کر فرقہ وارانہ ایشوز پر گفتگو کروانا اور لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرواناقابل مذمت ہے ۔اس حوالے سے پرائیویٹ میڈیا ہاوسز کے ماکلان کو پیمرا کی طرف سے دئیے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔صرف ریٹنگ کے چکر میں دوسروں کے عقائد کے خلاف بات کرنے سے انتشار پھیلتا ہے ۔قیوم نظامی نے طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر ابھرا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میڈیا ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ طاقتور ہے ،میڈیا کی طاقت کا اندازہ ماضی میں پاکستان میں چلنے والی وکلاء تحریک سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا نے ایک آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کر اس کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا اور ججوں کو بحال کروایا تھا ۔بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاست مذہب اور میڈیا میں کمرشلائزیشن شامل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مذہبی رواداری میں دراڑیں پڑ چکی ہیں ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے عمانویل سرفراز نے کہا کہ میڈیا میں احسان اللہ احسان اور نورین لغاری کے کیس کو مس ہینڈل کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر ثقافت کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے سیمینار سے اپنے خطاب میں کہا کہ مساجد ،امام بارگاہوں میں علماء مثبت کردار ادا کرتے ہوئے عوام میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا سے طاقتور مساجد کے علماء ہیں جو کہ اپنے خطبات کے ذریعے لوگوں میں مذہبی رواداری اور عدم تشدد کے بارے میں لوگوں کو شعور دے سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے علماء زیادہ پڑھے لکھے نہیں اور دوسرا وہ لوگوں کو مسلکی بنیادوں پر لڑنے سے روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔علامہ راغب نعیمی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والوں کو چاہئے کہ ایسے واقعات جو جو مذہبی انتشار کو ہوا دیں ان کو خبروں میں جگہ نہ دیں ،۔انہوں نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا لوگوں میں بہت زیادہ موثر ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ جن باتوں سے سوسرے مسالک کے لوگوں کی دل آزاری ہو ایسی باتوں کو سوشل میڈیامیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے ۔