مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر93

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر93
مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر93

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمیں کافی عرصے بعد اس کوٹھی میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ رانی نے ہمیں شادی میں بھی نہیں بلایا۔ نہ ہی کبھی ہمارا اس طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سرفراز نواز اور ہم ایک دوسرے کیلئے اجنبی تھے۔ ایک دو بار آمنا سامنا ہونے کے علاوہ ہمارے درمیان کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
کافی عرصہ گزر گیا۔ رانی ایک بار ایورنیو اسٹوڈیو میں ملیں۔ بے حد اسمارٹ، شگفتہ اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ وہ باقاعدگی سے ہر سال طبی معائنہ کرانے کیلئے لندن جاتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہے۔ رانی کی عمر وہیں منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔
سرفراز نواز نے سوبائی انتخابات میں حصہ لیا تو رانی نے ایسے زور شور سے انتخابی مہم چلائی کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ مزنگ تو ان کا آبائی محلّہ تھا۔ مگر لاہور کے دوسرے علاقوں میں بھی وہ گھر گھر گئیں۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہوگئیں۔ گھریلو عورتیں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی تھیں کہ ان کے سامنے ایکٹریس رانی کھڑی ہے۔ وہ بہت بے تکلفی سے ان میں گھل مل جاتیں۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتیں اور سرفراز کو ووٹ دینے کا وعدہ لیتیں۔

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر92 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آپ فکر ہی نہ کریں۔ ہمارا ووٹ تو آپ کا ہوگیا‘‘۔
’’مگر اپنے ان کا ووٹ بھی سرفراز صاحب کو دلانا‘‘۔ وہ مسکرا کر کہتیں۔
سرفراز نواز خاصی اکثریت سے انتخاب میں کامیاب ہوکر ایم پی اے بن گئے تو رانی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ گھر میں سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور بڑے لوگوں کا آنا جانا ہوگیا۔ وہ سیاسی اور سرکاری تقاریب میں شرکت کرنے لگیں۔ بڑے لوگوں کی پارٹیوں میں نظر آنے لگیں۔ اس طرح رانی کے ملاقاتیوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا۔ انہیں سیاست کا ایسا مزا پڑا کہ خود بھی سیاست میں حصہ لینے کا پروگرام بنانے لگیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرفراز نواز کی کامیابی میں رانی کی کوشش اور مقبولیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ اپنے طور پر خود اپنے لیے مہم چلا کر بھی انتخاب جیت سکتی تھیں۔ مگر سیاست رانی کا میدان نہیں تھا۔ بعض انگریزی اخبارات کی صحافی خواتین نے انہیں میگزین نکالنے کا مشورہ دیا تھا اس سلسلے میں انہیں ہماری یاد آگئی۔
ایک دن دفتر میں پیغام ملا کہ ایک خاتون کا فون آیا تھا۔ انہوں نے اپنا نام نہیں بتایا صرف اپنا ٹیلی فون نمبر چھوڑا ہے۔ ہم نے فون کیا تو دوسری طرف رانی بول رہی تھیں۔ پہلے تو شکوہ شکایت کا دور چلا۔ آپ تو بھول ہی گئے۔ کبھی فون تک نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔
’’آپ کہئے، کیسے یاد کیا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’آپ آج شام کو میرے ساتھ چائے پئیں، گھر تو دیکھا ہے نا؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ خوب اچھی طرح دیکھا ہے‘‘۔
وہ ہنسنے لگیں۔ ’’آپ کو پتا بھی ہے۔ میں نئے گھر میں شفٹ ہوگئی ہوں‘‘۔ پھر انہوں نے اپنا پتا بتایا۔ بہت آسان پتا تھا۔ شام کو ہم ان کے گھر گئے۔ بڑا مضبوط اور شاندار دروازہ تھا۔ پہلے ایک چوکیدار آیا پھر دوسرا ملازم آیا پھر اندر سے تیسرا پرانا ملازم نمودار ہوا۔ فوراً گیٹ کھل گیا۔ اندر گئے تو ایک خوبصورت کوٹھی ہمارے سامنے تھی۔ دو کاریں کھڑی ہوئی تھیں۔ لان بے حد سرسبز اور پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ کوٹھی کے اندر قدم رکھا تو وہاں بھی زیبائش و آرائش بہت خوب تھی۔ دولت اور خوش مذاقی درودیوار سے ٹپک رہی تھی۔ ملازم نے ہمیں لاؤنج میں لے جاکر بٹھا دیا۔ یہ لاؤنج گنجائش اور سجاوٹ کے اعتبار سے ڈرائنگ روم پر بھی بھاری تھا۔ چند منٹ بعد رانی آف وہائٹ شلوار قمیص میں ملبوس اندر داخل ہوئیں۔ اسی طرح مسکراتی ہوئی۔ دیکھنے میں بھی تندرست اور فٹ لگ رہی تھیں۔
’’ادھر ڈرائنگ روم میں سرفراز کے پاس لوگ بیٹھے ہیں، اس لیے میں نے آپ کو لاؤنج میں بلا لیا‘‘۔
ہم نے کہا ’’بہت مہربانی۔ ورنہ آپ سرونٹ کوارٹر میں بھی بٹھاتیں تو خوشی سے بیٹھ جاتے‘‘۔
کچھ دیر ایک دوسرے کا احوال پوچھا گیا۔ تھوڑی سی ہوٹنگ ہوئی چائے کی ٹرالی اندر آئی تو وہ موضوع پر آگئیں۔ انہیں ایک میگزین نکالنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ میں نے کہا ’’کہ میرے ایڈوائزر تو آفاقی صاحب ہیں۔ ان سے پوچھوں گی‘‘۔
ہم نے کہا ’’اچھا ہوا کہ پوچھ لیا۔ اب آئندہ نہ پوچھنا‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ یہ کام آپ کے باس کا نہیں ہے۔ کبھی بھول کر بھی یہ ارادہ نہ کرنا‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘ انہوں نے تفصیل دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ ’’اچھا! فلم بناؤں کہ نہیں؟ سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلم بنانے کا بہترین موقع ہے‘‘۔
’’بالکل نہیں۔ یہ حماقت نہ کرنا‘‘۔
’’تو پھر کیا کروں؟‘‘
’’بھئی آرام سے گھر میں بیٹھو۔ بہت کام کیا ہے۔ اب آرام کرو، عیش کرو‘‘۔
’’اللہ کا بہت فضل ہے۔ واقعی اب میں عیش کر رہی ہوں۔ اچھا اگر ٹی وی میں اچھا رول مل جائے تو کرلوں؟‘‘
ہم نے کہا ’’اب اتنی زیادہ سعادت مند بننے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بھئی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ اپنے سارے فیصلے خود ہی کرتی ہیں‘‘۔
چلتے وقت وہ بولیں ’’اچھا۔ اب ادھر کا راستہ نہ بھول جانا۔ اور بھابھی کو بھی لے کر آنا‘‘۔
اسی زمانے میں ہم نے فیملی میگزین کیلئے رانی اور سرفراز نواز کا فیملی فیچر بنانے کا ارادہ کیا۔
’’سرفراز سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ پتا نہیں وہ تصویر بنوانا پسند کریں یا نہیں؟‘‘
اس ملاقات میں ہماری بیگم اور بچیاں بھی ساتھ تھیں ’’ماشاء اللہ۔ کتنی بڑی ہوگئی ہیں‘‘۔
ہم نے کہا ’’اب ذرا اپنی بیٹی کی شکل بھی دکھا دیں‘‘۔
وہ ہنسنے لگیں۔ رابعہ نزدیک ہی پرانی کوٹھی میں اپنی نانی کے ساتھ رہتی تھیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس کی طالبہ تھی۔ ہم نے اسے کافی عرصے کے بعد دیکھا۔ وہ تو بالکل بدل گئی تھی۔ نہایت شائستہ، سمجھ دار اور سنجیدہ ہوگئی تھی۔
ہم نے کہا ’’رابعہ کی تصویر بھی بنے گی‘‘۔
’’ارے نہیں آفاقی صاحب۔ رابعہ کو میں نے اخباروں، فلم اور پبلسٹی سے دور ہی رکھا ہے۔ٓپ تو جانتے ہیں یہ دنیا شریفوں کی نہیں اور میں اپنی بیٹی کو شرافت کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا چاہتی ہوں‘‘انکی بات سن کر میں حیران ہوا اور سرفراز نواز جو اندر کمرے میں آئے تھے ان کا منہ تکنے لگا ۔رانی میں یہ تبدیلی غالباً انکی وجہ سے تھی۔
ہم نے کہا ’’بھئی یہ فیملی فیچر ہے۔ مطلب یہ کہ فیملی کے سارے ممبر اس میں نظر آنے چاہئیں‘‘۔
رانی مان گئیں۔ یہ غالباً سرفراز نوا زاور رابعہ کے ساتھ ان کا پہلا انٹر ویو تھا۔ یکجا تصویریں بھی پہلی بار ہی شائع ہوئی تھیں۔ سرورق پر ان کی اور سرفراز نواز کی تصویر شائع ہوئی تو سب حیران رہ گئے۔ کافی عرصے بعد لوگوں نے رانی کی تازہ ترین تصاویر دیکھی تھیں اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ وہ پہلے ہی کی طرح جوان اور شاداب نظر آ رہی تھیں۔
’’رانی تو اپنی بیٹی کی بہن لگ رہی ہے‘‘۔
جب ہم نے یہ تبصرہ رانی کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔
رانی نے جب ٹیلی ویژن سیریل میں کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ہمیں بھی بتایا، بولیں ’’میں آپ کو اسکرپٹ سنواؤں گی‘‘۔
ہم نے کہا ’’بس رہنے دیں۔ خود ہی فیصلہ کریں اور سیریل کا اسکرپٹ تو ساتھ کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے‘‘۔
انہوں نے ’’خواہش‘‘ اور ’’فریب‘‘ میں کام کیا تو ان کے مداحوں کو بہت خوش گوار حیرت ہوئی۔ان کی عمر اور ان کے ساتھ کی ہیروئنیں فلموں میں ماؤں کے کردار کر رہی تھیں۔ بے ڈول اور بد زیب ہوچکی تھیں مگر رانی کی بات ہی اور تھی۔ ان سیریز کے بعد انہوں نے بذاتِ خود ایک ٹیلی ویژن سیریل بنانے کا منصوبہ بنایا۔(جاری ہے)

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر94 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)