سی پیک ،دنیا بدلنے کا نظام لارہا ہے
پاک چین دوستی پاکستان کے لئے ایک طاقت کا باعث ہے۔ جب جب پاکستان کسی مصیبت میں گرفتار ہوا ۔۔ چین وہ پہلا ملک تھا جو پاکستان کی مدد کو آگے آیا۔۔ پاکستان نے چین سے دوستی کا ہاتھ اُس وقت بڑھایا تھا جب کیمونسٹ روس اور سرمایہ دار امریکہ اور اُس کے اتحادی چین کے درپے ہوئے ہوئے تھے۔ یہ چین کی شب و روز محنت ہی تھی جو آزدی کے کچھ ہی عرصے کے بعد چین دنیا کی بڑی طاقتوں میں گنا جانے لگا۔۔
آج چین محنت ، ڈپلومیسی اور معاشی ترقی کی ایک اعلٰی نظیر ہے۔ OBOR(ون بیلٹ ون روڈ) جس کا ایک منصوبہCPECہے ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کے لئے بہت سے مواقع لا رہا ہے۔
اس منصوبے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ چین کی سرمایہ کاری کے مقاصد کو سمجھا جائے ۔ چین جہاں اپنا فائدہ چاہ رہا ہے وہیں وہ چاہتا ہے کہOBORکے ممبر ممالک بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں۔۔ اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے پیچھے اُن ممالک اور طاقتوں کا ہاتھ ہے جو اس منصوبے کو اپنے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ ممبرممالک کی لیڈر شپ پر ہے کہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کیسے کرتی ہے۔۔ اگر لیڈر شپ اپنے مفاد کی حفاظت میں ناکام رہے تو یہ غلطی چین کی نہیں بلکہ رکن ملک کی لیڈر شپ کی ہو گی۔ میری تحقیق کے مطابق چین کی خواہش ہے کہ ممبر ممالک میں جو کمزور ممالک ہیں وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اپنا رول ادا کریں۔ یہ کہنا کہ چین ان ممالک کو colonyبنانے جا رہا ہے یہ انتہائی غلط بات ہے۔ کیونکہ اس گلوبلآئزیشن کے دور میں ایسا کرنا ممکن نہیں اور ایسا صرف تب ہی ہو سکتا ہے جب free Rideکے شوق میں ملک اپنے national intrestsکی پرواہ نہ کرے۔
ONE BELT ONE ROAD
چین کے one road , one beltمنصوبے کا اعلان 2013میں کیا گیا۔ اس منصوبے کو امریکی حمایت یافتہ منصوبے Trans Pecific Partnershipکے متبادل کی حیثیت سے ترتیب دیا گیا تھا TPP کا مقصد چینی اثر رو رسوخ کو روکنا تھا.
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہOBORمنصوبہ ایک نئے world orderکو جنم دینے جا رہا ہے۔ OBORکا دائرہ سنگاپورسے بحیرہ روم تک پھیلا ہوا ہے۔
چین حکام کے مطابق OBORمنصوبہ ایک معاشی سرمایہ کاری ہے ۔ چین کی طرف سے ممبر ممالک کو قرض دی گئی رقم سود سمیت واپس آئے گی۔قرض دی گئی رقم سے ان ممالک میں انفراسٹکچر میں بہتری آئے گی جو چینی تجارت کے لئے مدد گار ہونے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرے گی۔
پاک چین Long Term Plan کا آغاز نومبر 2013میں ہوا جب National Development and Reform comission of ChinaنےChinese Development Bankکو پاکستان کے ساتھ تعاون کا Road Mapبنانے کا حکم دیا۔ 2015میں China Development Bankنے دیگر ادروں کے ساتھ مل کرdetail Studyکی اور دسمبر 2015میں اگلے پندرہ سانوں کے لئے ایک پلان تیار کیا جس کے تحت چین سرکاری اور نجی سطح پر پاکستانی معیشت کے ہر areaمیں داخل ہو جائے گا
CDBکا پلان
Chinese Development Bankکی طرف سے پیش کیا گیا پلاں 231صفات پر مشتمل ہے ۔
اس پلان کے مطابق ہزاروں ایکڑ اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی تاکہ وہ وہاں پر Demonstreation Projectsقائم کریں۔ جہاں یہ کمپنیاں بیجوں کی Qualityسے لے کر آب پاشی کے نظام اور Techonologyپر کام کریں گی۔
پشاور سے لے کر کراچی تک ایک مکمل SurvillanceاورMoniteringکا نظام تشکیل دیا جائے گا جس میں24گھنٹے CC TV's کی مدد سے شہروں ، شاہراہوں اور اہم بازارون کی moniteringکی جائے گی تاکہ امن و امان پر قابو پایا جا سکے
ایک نیشنلFiber Optic Cable بچھائی جائے گی جس کا مقصد صرف انٹر نیٹ ٹریفک ہی نہیں بلکہ علاقائی ٹی وی چینلز کی نشریات کو چینی مدد سے چینی کلچر کو پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
زراعت
یہ ایک تفصیلی پلان ہے جس کے مطابق زراعت کے ہر شعبے میں چین پاکستان کی مدد کرے گا ۔ چینی کمپنیاں اپنے فارم ہاؤس چلانے سے لے کر اجناس ،پھل اور سبزیوں کیprocessing Facilitiesتک بنائیں گی ۔
ؒ Logesticکمپنیاں بڑے سٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن سسٹم بنائیں اور چلائیں گی
چینی حکام نے10 key areas اور 17پراجیکٹس کی نشاندہی کی ہے ۔ جن میںNPK Fertilizer Plant جس کی سالانہ پیداوار 8لاکھ ٹن ہو گی اور اسے لیز پر لئے فارم پر بنایا جائے گا۔
سکھر میں meat Processingپلانٹ لگایا جائے گا جس کی سالانہ پیداوار 2لاکھ ٹن ہو گی اسی طرح 2ملک پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائین گے جن کی سالانہ پیداوار 2لاکھ ٹن ہو گی۔
6500ایکرز پر demonstration Projectsلگائی جائیں گے جو high yeald seedsاورIrrigationٹیکنیکس پر کام کریں گے۔ یہ پراجیکٹس زیادہ تر پنجاب میں لگائے جائیں گے۔پلان کے مطابق پاکستان بھر میں اجناس ، پھل اور سبزیوں کی ترسیل ، سٹوریج کے لئے گودام اور تقسیم کا نظام بنایا جائے۔
چینی کمپنیاں پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گی اور کاروبار میں شیئیر ہولڈر ہو نگی۔ چینی کمپنیوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستانی کاروباری حلقوں سے شرکت داری کریں اور پاکستان کے رسم و رواج کا خیال رکھیں اور اپنا علم و تجربہ پاکستانی بزنس کمیونیٹی سے شیئیر کریں۔
صنعت
پلان کے مطابق پاکستان کو تین zones میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا شمال مغربی ، دوسرا وسطی اور تیسرا جنوبی حصہ۔ ہر حصے میں قائم انڈسٹریل پارکس میں علاقے کے حوالے سے مخصوص قسم صنعتین لگائی جائیں گی۔ مغربی اور شمال مغربی حصے میں صوبہ خیبر پختوں خواہ اور بلوچستان کا علاقہ آتا ہے یہاں معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جن کا چین ایک بڑا خریدار ہے۔ پلان کے مطابق یہاں 12ماربل اور گرینائٹ پروسیسنگ سائٹس بنائی جائیں گی۔
سینٹرل زون میں ٹیکسٹائل ، home appliancesاور سیمنٹ کی صنعت لگائی جائے گی ۔ جن میں داؤد خیل ، خوشاب، عیسٰی خیل اور میانوالی میں سیمنٹ بنانے کے کارخانے لگیں گے۔
جنوبی زون ، یہ زون سمندر کے کنارے واقع ہے ۔ اس زون میں پیٹرو کیمیکل ، سٹیل ، مشینری ، آٹو پارٹس اور گاڑیوں کی اسمبلی کے کارخانے لگائے جائیں گے۔ گوادر بھی اسی زون میں آتا ہے جو بلوچستان کو افغانستان سے ملاتا ہے۔ اس علاقے میں heavyاور کیمیکل انڈسٹری لگائی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہاں ساحلی resortsبنائے جائیں گے تاکہ پاکستان میںTourismکو فروغ ملے۔
پلان میں ٹیکسٹائل کی صنعت میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی گئی ہے ۔۔ یہ دلچسپی YarnاورCoarse Clothمیں ہے۔ چینی صوبے سینکیانگ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کافی ترقی کر چکی ہے۔ چین پاکستان سے rawمٹیریل خریدے گا جو سستا بھی ہے اور اچھی کولیٹی کا بھی۔
Fibreoptics and surveillance
CPECکے حوالے سے بات چیت کے آغاز سے ہی چینی حکام کی یہPriorityرہی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایکFiberoptic لنک بنایا جائے۔ اس لنک کے لیئے MoUپر دستخط 2013میں ہوئے۔ پلان کے مطابق ایک terrestrial کیبل خنجراب پاس سے اسلام آباد تک بچھائی جائے گی جبکہ ایک سب میرین لینڈنگ اسٹیشن گوادر میں قائم کیا جائے گا جسے سکھر سے لنک کیا جائے گا
brandwithمیں اضافہ HDٹیلیویژن کی براڈکاسٹ کو راستہ دے گی۔ جس کی مدد سے پاکستان میں چینی کلچر کو فروغ دیا جائے گا تاکہ پاکستانی اور چینی عوام قریب آ سکین۔ اس پلان میں کس قسم کا کانٹینٹ پیش کیا جائے گا اور کوں اس کانٹینٹ کو کنٹرول کرے گا ۔۔۔ اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔
پلان میں خنجراب باڈر پر الیکٹرونک سرویلنس اور مونیٹرنگ سسٹم کی تنصیب اور سیف سٹی پراجیکٹ نظام بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے لئے explosive detectorsاور سکینرز تمام اہم شاہراہوں پر نصب کیئے جائیں گے۔ شہری علاقوں میں24گھنٹے سڑکوں اور بازاروں سمیت اہم مقامات کیCC TVکے ذریعے نگرانی ہو گی۔ جبکہ ان تمام سسٹمز سے حاصل ہونے والی معلومات کو کمانڈ سینٹر میں مانیٹر کیا جائے گا۔ سب سے پہلا سیف سٹی پراجیکٹ پشاور میں قائم ہو گا جس کے بعد اس سلسلے کو باقی شہروں تک پھیلایا جائے گا۔
Finance and risk
پلان میں پاکستانی سیاست اور سیکیورٹی کو سب سے بڑا Riskکہا گیا ہے۔ تیسرے نمبر پر افراط زر کو بڑا خطرہ کہا گیا ہے جو پلان کے مطابق پچھلے6سال میں11.6فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ افراط زر میں اضافے کا مطلب مختلف پراجیکٹس کی قیمت تعمیر میں اضافہ اور منافع میں کمی سے تعبیر کی گئی ہے۔
پلان میں کہا گیا ہے ایک بار جب کوریڈور سے پیسے آنے لگ جائیں گے تو کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کو بغیر سود یا پھر انتہائی کم شرع سود پر قرض دیا جائے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ پاکستانی وفاقی اور لوکل گورنمنٹس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ sovereign guarantee bonds کے ذریعے اپنے حصہ ڈالیں اور کوریڈور کی حفاظت اور تعمیر کے لئے بجٹ میں حصہ رکھیں
نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
دنیا میں طاقت اور معیشت کا محور مغرب سے مشرق کی طرف آ رہا ہے۔ چین نے خود کو ایک طاقتور معیشت کی حیثیت سے منوایا ہے۔ روس کی فوجی طاقت اور چین کی معاشی طاقت مل کر اس وقت امریکہ اور پرانے world orderکو چیلنج کر رہی ہیں۔ یہ ہماری حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے CPECاورOBORکے متعلق تفصیلات بتائے تاکہ نادان دوستوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی ڈس انفرمیشن ختم ہو۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔ اگر ہم free Rideمانگیں گے تو یقیناً نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ہمیں بین الاقوامی شطرنج پر جاری بازی کو بھی سمجھنا ہو گا تاکہ ہم اپنے مفادات کو سمجھ سکیں اور درست فیصلے کر سکیں۔
(بلاگر ایک نجی ٹی وی چینل میں سینئیر ریسرچ اینیلسٹ ہیں )
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔