وہ انتہائی ترقی یافتہ ملک جس کی ترقی نے اس کے شہریوں کو بانجھ بنادیا، بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہے کیونکہ۔۔۔
ٹوکیو (نیوز ڈیسک)ہمارے ملک کی آبادی اس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے کہ معاشی ترقی کے سب منصوبے ہی اس کی لپیٹ میں آکر ملیا میٹ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک جانب ہم ہیں کہ جن کے لئے بے قابو افزائش نسل درد سر بن گئی ہے تو دوسری جانب ترقی یافتہ ملک جاپان کود یکھئے جس کے شہری آبادی بڑھانے میں اس بری طرح ناکام ہو رہے ہیں کہ جاپانی حکومت بھی سخت پریشان ہو گئی ہے۔
دی انڈیپیڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق جاپان کی گرتی ہوئی شرح پیدائش گزشتہ سال انتہاءکو پہنچ گئی۔ 1899ءکے بعد پہلا موقع تھا کہ پورے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کی کل تعداد 10 لاکھ سے بھی کم تھی۔ تازہ ترین ڈیٹا ظاہرکرتا ہے کہ صورتحال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
شوہر کو ڈرانے کی کوشش میں نوجوان لڑکی جان سے گئی
جاپان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سکیورٹی ریسرچ کا کہنا ہے کہ موجودہ شرح پیدائش کا رجحان جاری رہا تو 2065ءتک ملک کی آبادی کم ہوکر 4کروڑ رہ جائے گی، جو کہ اس وقت تقریباً پونے 13 کروڑ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی نوجوان آبادی بڑھانے میں دلچسپی نہیں لے رہے کیونکہ وہ اس صلاحیت سے ہی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال کئے گئے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ 70 فیصد نوجوان مرد اور تقریباً 60 فیصد نوجوان لڑکیاں تنہائی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر عمرانیات میری برنٹن کہتی ہیں کہ ”دوسری جنگ عظیم کے بعد روایت یہ تھی کہ جاپانی مرد کام کیا کرتے تھے جبکہ خواتین گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے خواتین بھی مردوں کی طرح ہی کام کررہی ہیں۔ جاپانی معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے اور لوگ سماجی زندگی پر اقتصادی ضروریات کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں فیملی کا آغاز کرنے اور اولاد پیدا کرنے کا رجحان کمزور پڑتا جارہا ہے۔ میں تو اسے جاپانی معاشرے میں خاندان کی موت قرار دوں گی۔“
واضح رہے کہ صرف جاپان ہی اس مسئلے سے دوچار نہیں ہے بلکہ امریکہ، ڈنمارک، چین اور سنگاپور میں بھی جنسی ذرخیزی کی شرح کم ہوکر بالترتیب 1.87، 1.73، 1.6 اور 0.81 پر آچکی ہے، تاہم جاپان کا مسئلہ سنگین تر ہوچکا ہے۔