سعودی پولیس کی حراست میں مارا جانے والا یہ پاکستانی شہری دراصل کون ہے؟ اس کی زندگی کی کہانی جان کر آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ رُکیں گے

سعودی پولیس کی حراست میں مارا جانے والا یہ پاکستانی شہری دراصل کون ہے؟ اس کی ...
سعودی پولیس کی حراست میں مارا جانے والا یہ پاکستانی شہری دراصل کون ہے؟ اس کی زندگی کی کہانی جان کر آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ رُکیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک)فروری کے آخر میں سعودی پولیس نے دارلحکومت میں پاکستانی خواجہ سراﺅں کی ایک مبینہ پارٹی پر چھاپہ مارا اور درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس چھاپے میں محمد امین عرف مینو نامی پاکستانی شہری بھی گرفتار ہوا لیکن یہ بدقسمت پولیس کی حراست میں ایک رات بھی نہ نکال سکا اور مبینہ طور پر بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب امین کو گرفتار کیا گیا تو اس نے زنانہ لباس و زیورات پہن رکھے تھے اور میک اپ بھی کیا ہوا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا اور اس کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں بھی تھیں۔ امین کو 34دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کرکے عزیزیہ جیل میں ڈال دیا گیا لیکن اسی رات اس کی موت ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق کچھ پاکستانی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسے بوری میں بند کر کے ڈنڈوں اور پائپوں سے تشدد کیاگیا جس کی وجہ سے وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ وہ پہلے ہی دل کا مریض تھا۔ تاہم، سعودی حکام نے گرفتار شدگان کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاعات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ امین کی موت کی وجہ دل کا دورہ تھی۔

اس معروف خاتون نے نوجوان کی سب سے بڑی مشکل حل کردی، وہ کام کردیا کہ نوجوان ساری عمر یاد رکھے گا
رپورٹ کے مطابق محمد امین عرف مینو کی پیدائش 1957ءمیں سوات کے علاقے باری کوٹ میں ہوئی۔ باری کوٹ میں ہی اس نے درزی کا کام سیکھا اور لیڈیز ٹیلر بن گیا۔ 1980ءکی دہائی میں وہ سعودی عرب گیا جہاں وہ خواتین کے کپڑوں کی سلائی کیا کرتا تھا۔ اس سعودی عرب میں قیام کے دوران اس نے اپنے بیوی بچوں کے لئے بھرپور محنت کی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔


وہ خواجہ سرا تھا اور سعودی عرب جا کر بھی اپنے اس رویے میں تبدیلی نہ لا سکا۔ وہاں کچھ دیگر خواجہ سراﺅں سے بھی اس کے تعلقات قائم ہوئے اور وہ سب اسے پیار اور احترام سے ’مینو باجی‘ کہتے تھے۔ پاکستان میں خواجہ سراﺅں کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’بلو وینز‘ کی ایک رکن نے بتایا کہ مینو بہت حساس دل والا محبت کرنے والا انسان تھا۔ وہ نہ صرف اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھتا تھا بلکہ عزیزوں اور دوستوں میں سے کسی کو مالی مشکل کا سامنا ہوتا تو ان کی مدد کے لئے بھی پہنچ جاتا تھا۔ اس کی شفقت اور حساس دل کی تو ہر کوئی تعریف کرتا تھا لیکن اس کا خواجہ سرا ہونا خاندان والوں کو قبول نہ تھا۔ اسے نہ صرف اپنے رشتہ داروں کی مخالفت کا سامنا رہا بلکہ اپنے بچوں نے بھی بائیکاٹ کیا۔


جب اس کی لاش پاکستان پہنچی تو بلووینز تنطیم کے ایک رکن کو اسے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس رکن کا کہناہے کہ امین کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے جبکہ کٹے ہوئے مسوڑھے منہ کے اندر لٹک رہے تھے۔ اس کے رشتہ داروں نے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دی اور یوں بہت سے اہم شواہد اس کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی مخصوص نوعیت کے باعث ممکن ہے کہ اس واقعے کے اصل حقائق کبھی بھی منظر عام پر نہ آئیں۔

مزید :

عرب دنیا -