فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر430

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر430
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر430

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انیس دو سانی مشرقی پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ اگریہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں صنعت فلم سازی کو قائم کرنے اور بام عروج پہنچانے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا تو غلط نہ ہوگا۔ انہیں کسی زمانے میں مشرق پاکستان کا ’’فلمی مغل ‘‘ کہا جاتا تھا اور وہ اس لق کے حق دار بھی تھے۔ 
انیس دوسانی اور ان کے خاندان کو اگر ایک مستقل مہاجر خاندان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پچاس سال کے مختصر عرصے میں ان لوگوں نے تین بار ہجرت کی اور ہربار سب کچھ لٹا کر نئے سرے سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور قدرت نے ہر بار انہیں کامیابی اور کامرانی سے نوازا۔ کوئی کمزور دل اور پست ہمت انسان ہوتا تو وہ کلکتہ سے ڈھاکا پہلی ہجرت کے وقت ہی بدل شکتہ اور مایوس ہوجاتا لیکن دو سانیوں نے مایوس ہونا سیکھا ہی نہیں تھا ۔ ’’ دو سانیوں ‘‘ کی اصطلاح پر آپ حیران نہ ہوں ۔ انیس دو سانی سے پہلے ان کے والد اور چچا کلکتہ میں فلمی کاروبار ہی کرتے تھے لیکن یہ فلموں کی ڈسٹری بیوشن تک محدود تھا۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر429 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انیس دو سانی صاحب کے والد کا نام ہمیں معلوم تھا مگر ایسا دماغ سے اتر ا کہ ہم انہیں ’’بڑے دوسانی ‘‘ ہی کے نام سے یاد کرتے رہے ۔ انیس صاحب نے بھی کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا ۔ انہیں نہ تو ہم نے بتایا تھا کہ ہم ان کے والد کا نام بھول گئے ہیں اورنہ ہی کبھی انہیں یہ شک ہونے دیا ۔ اس وقت بھی بڑے دوسانی صاحب کا نام ہمارے ذہن میں گھوم رہا ہے لیکن پورا نام یاد نہیں۔ 
انیس دوسانی کے والد اور چچا کلکتہ میں خاموش فلموں کے زمانے سے یہی کاروبار بھی کرتے تھے مگر فلم ان کا ایک مخصوص اور دل پسند کام تھا ۔ ان لوگوں نے کلکتہ میں کئی خاموش فلمیں ریلیز کی تھیں ۔ دوسانی فلمز کے نام سے ان کا تقسیم کار ارادہ ہندوستان کے مشرقی حصے کے لیے فلموں کے حقوق حاصل کرتا تھا۔ جب برصغیر کی پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ سارے ملک میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو کلکتہ اور مشرقی سرکٹ میں اس کے تقسیم کا ر دوسان فلمزہی تھے ۔ اس طرح اس خاندان کو ایک نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے۔ میمن لوگ کاروبار کے معاملے میں سیلف اسٹارٹ ہوتے ہیں۔ انہیں کاروبار کرنے اور پیسہ کمانے کے گر آتے ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ دیانت دار بھی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سارے ہندوستان کے تجارتی مراکز میں ہر جگہ میمن کاروباری حضرات موجود ہیں اور ہر جگہ خوش حال اور کامیاب ہیں ۔ انیس دوسانی کے خاندان نے فلموں کے سلسلے میں اتنی نمایاں خدمات سر انجام دی تھیں کہ انیس دوسانی کے چچا کو انگریزی حکومت نے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا تھا ۔ گویا ان کا خاندان ایک کہ بند فلمی خاندان تھا۔ 
تقسیم ملک کے وقت دوسانی خاندان نے پہلی ہجرت کی اور کلکتہ سے ڈھاکہ کا رخ کیا ۔ کلکتہ سے یہ لٹ پیٹ کر آئے تھے ۔ زمین ‘ جائداد‘ کاروبار ۔ فلمیں سب کچھ وہی رہ گیا تھا۔ جو تھوڑا بہت بچا کر لا سکے تھے وہ اپنے ساتھ لے آئے اور ڈھاکا میں ازسرنوایک نئے دور کا آغاز کیا ۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ڈھاکا میں کارباری اور تجارتی اعتبار سے اپنے پیر جمالیے۔ فلموں کی تقسیم کاری کا بزنس انہوں نے ڈھاکا میں بھی شروع کردیا ۔ اس وقت ڈھاکا میں تو فلمیں بنتی نہیں تھین۔ مغربی پاکستانی سے فلمیں نمائش کے لیے ڈھاکا اور مشرقی پاکستان جاتی تھیں۔ ڈھاکا میں کئی تقسیم کار ادارے تھے جن میں سے ایک کراچی کے تقسیم کا رجے سی آنند کا ادارہ ایورریڈی پکچرز بھی تھا ۔ ایور ریڈی پکچرز بہت بڑا ادارہ تھا ۔ جو ہر سال درجنوں فلمیں ریلیز کرتا تھا۔ جب تک پاکستان میں بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی نہیں عائد ہوئی تھی اس وقت تک بھارت سے اردو اور بنگلہ فلمیں بھی ڈھاکا میں ریلیز کی جاتی تھیںیہان تک کہ مغربی پاکستان میں بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی لگ جانے کے باوجود ڈھاکا کے کچھ تقسیم کار کلکتہ سے بنگالی اور اردو فلمیں منگا کر ریلیز کرتے تھے ۔ ان لوگوں کی تمام تر ہمدردیاں بھارتی فلموں کی درآمد کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ دولت کمانے کا بہت آسان نسخہ تھا ۔ تھوری سی رقم دے کر کامیاب بھارتی فلموں کے حقوق حاصل کر لیے جاتے تھے اور یہ فلمیں مشرقی پاکستان کے علاوہ بعض اوقات مغربی پاکستان میں بھی پہنچ جاتی تھیں ۔ اس منافع کے سودے میں بھارتی فلموں کی آمد پر بندش لگ جانے سے گھاٹے کا اندیشہ تھا اس لیے ڈھاکا کے تقسیم کار ( اور مغربی پاکستان کے تقسیم کار بھی ) بہر صورت بھارت فلموں کی در آمد کے قائل تھے ۔ اس اس مقصد کے لیے وہ جائز و ناجائز تمام ذرائع استعمال کرتے تھے ۔ ایک موقع پر جب پاکستان میں بھارتی فلموں کی درآمد بند کرنے کے سلسلے میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش ہونے والا تھا تو ڈھاکا کے تقسیم کاروں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے تھے۔ اسمبلی کے ارکان کی بیگمات کی سیرو تفریح اور شاپنگ کے لیے کلکتہ کی سیر کرائی گئی اور دو سری ’’خدمات‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ یہ ایک علیٰحدہ کہانی ہے جس کے کرداروں میں ڈھاکا ‘ کراچی اور لاہور سبھی شہروں کے تقسیم کار شامل تھے ۔ 
ڈھاکا میں دوسانی خاندان نے تقسیم کاری ک آغاز کیا اور مغربی پاکستانی سے اردو فلمیں حاصل کر کے مشرقی پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کرنے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوسرے کاروبار اورتجارت بھی شروع کر دی۔ ۱۹۷۰ء میں جب وہ ڈھاکا سے کراچی آئے تو مشرقی پاکستان میں اپنی رہائش گاہ اور دفاتر کے علاوہ تقسیم کار ادارہ ‘ بے شمار فلمیں ‘ ایک شان دار کئی منزلہ کمرشل عمارت ‘ ایک سنیما ہاؤس اور ایک چائنیز ریستوران بھی وہیں چھوڑ آئے تھے ۔ یہ ان کی دوسری ہجرت تھی۔ 
اس سے پہلے مشرقی پاکستان میں ان کی مصروفیات کا حال سنئے۔ تقسیم کاری کا بزنس تو چل ہی رہا تھا مگر انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ فلم سازی کا آغاز کیا جائے۔ 
ان کی پہلی بنگلہ فلم ’’’راج دہانیربو کےُ ‘‘ تھی ۔ یہ فلم بہت کم سرمائے سے اور بالکل نئی کاسٹ اور نئے ہدایت کار کے ساتھ بنائی گئی تھی۔ اس کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس فلم میں روبن گھوش کو پہلی بار میوزک ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جو آگے چل کر پاکستان کی فلمی صنعت کے مایہ ناز موسیقار ثابت ہوئے اور نہوں نے بہت سی اردو فلموں کے لیے ناقابل فراموش گانے ترتیب دیے۔ اسی فلم میں معاون ادارکارہ کے طور پر دہلی پتلی ‘ گہری سانولی رنگت لیکن بڑی بڑی چمک دار آنکھوں ااور بہت لمبے سیاہ بالوں والی ایک لڑکی بھی متعارف کرائی گئی تھی جس کا نام جھرنا تھا ۔ جھرنا چشمے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہندی اور بنگلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی جھرنا بعد میں شبنم بن گئیں اور پاکستان کی صف اوّل کی ممتاز ہیروئن بن گئیں۔ انہوں نے تیس سال سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ڈھاکا سے مغربی پاکستانی آنے کے بعد انہیں بہت عروج حاصل ہوا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ پاکستان کی مصروف ترین اور بے حد مقبول ہیروئن بن گئیں اور اس حیثیت سے انہوں نے سلور جویلی منائی۔ پاکستان کا کون سا معروف ہیرو ہے جس کے ساتھ انہوں نے کام نہیں کیا بلکہ اداکاروں کی دوسری اور تیسری نسل کے ساتھ بھی انہوں نے کام کیا تھا۔ جب پاکستان میں اردو فلموں پر زوال آیا تو وہ ڈھاکا چلی گئیں اور وہاں بنگلہ فلموں میں کام کیا مگر مقامی ہیروئنوں نے انہیں ٹکنے نہیں دیا۔ مجبوراً وہ دوبارہ لاہور آگئیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کی ۔ کچھ عرصے بعد وہ اداکاری سے کنارہ کش ہو گئیں ۔ اس کا ایک سبب ان کی بیماری بھی تھی۔ اردو فلموں کی قلت کے پیش نظر روبن گھوش بھی گھر بیٹھ رہے تھے ۔ اس طرح یہ مقبول جوڑی جو موسیقار اور ہیروئن پر مشتمل تھی فلمی افق سے غائب ہوگئی۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )