وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 53ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 53ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 53ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمارہ کی پیشانی پیسنے سے تر تھی۔ وہ شدید گھبراہٹ میں ماں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔جبکہ رابعہ کے ہاتھوں زندگی ریت کی طرح سرک رہی تھی کوئی ایسا کمرہ نہیں تھا جہاں رابعہ خود کو چھپا لے، پورا گھر اس بھیانک سیاہ دھویں کی لپیٹ میں تھا۔ رابعہ کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں وہ ہار گئی تھی۔
وہ اپنے بوڑھے ناتواں وجود کو گھسیٹتی ہوئی کبھی کسی کمرے کی طرف دوڑتی اور کبھی کسی کمرے کی طرف۔

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 52ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی نظر الماری میں رکھے ہوئے قرآن پاک پر پڑی۔ اس نے آگے بڑھ کر قرآن پاک اٹھایا اور اسے اپنے سینے سے لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں چند ہی ساعتوں میں پوری کوٹھی کو اپنی لپیٹ میں لینے والا سیاہ دھواں ختم ہوگیا۔ رابعہ کوسیاہ دھویں کی حرارت محسوس نہیں ہوئی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔
اسے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آیا کہ اسے شیطان ہمزاد سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اسی دوران عمارہ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔’’مما۔۔۔مما! کہاں ہیں آپ۔۔۔‘‘
’’عمارہ۔۔۔‘‘ رابعہ نے اسے پکارا تو عمارہ دوڑتی ہوئی اس کمرے میں پہنچ گئی۔ اس نے ماں کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
’’شکر ہے خدا کا آپ ٹھیک ہیں۔‘ ‘‘ عمارہ نے کہا۔
رابعہ نے قرآن پاک کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا’’خدا کی اس کتاب کے آگے اس شیطان کی چل نہ سکی ورنہ تمہاری ماں تو کب سے لقمہ اجل ہو جاتی۔‘‘
’’ایسے نہ کہیں۔‘‘ عمارہ نے ایک بار پھر ماں کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
اس نے قرآن پاک الماری میں رکھا اور ماں کو سہارا دیتے ہوئے اس کے کمرے تک لے جانے لگی، وہ ساتھ ساتھ کمروں کی دیواروں کی طرف دیکھتی جا رہی تھی جو سیاہی مائل ہو گئی تھیں۔ بھیانک سیاہ دھواں تو ختم ہوگیا تھا مگر اس کے اثرات ایسے ہی تھے جیسے کسی گھر میں شدید آتشزدگی کے بعد ہوتے ہیں۔ اس نے ماں کو بستر پر لٹایا اور کچن سے گرم دودھ لے آئی۔
’’بیٹی میرا کسی بھی چیز میں دل نہیں ہے۔‘‘ رابعہ نے دودھ پینے سے منع کر دیا۔
عمارہ نے سہارا دے کر ماں کو بیٹھایا۔’’مما! آپ دودھ پی لیں۔ میری بات مان لیں ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی۔‘‘
رابعہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے دودھ پی لیا۔ اور پھر بستر پر براجمان ہوگئی۔ اس نے عمارہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔’’مجھے چھوڑ کر مت جانا۔‘‘
عمارہ نے ماں کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ماں سے نظریں چراتے ہوئے اس نے آنکھیں جھکا لیں۔’’یا اللہ میں کیا کروں۔‘‘ وہ سر جھکا کے گہری سوچ میں گم ہوگئی۔ پھر اسے اسامہ کا خیال آیااس نے اپنے موبائل سے اسامہ کا نمبر ملایا۔
’’ہیلو۔۔۔کیا حال ہے آپ کا؟‘‘
’’خدا کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ اسامہ نے جواب دیا۔
’’اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ میرے گھر آسکتے ہیں۔‘‘
عمارہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’جی آپ ایڈریس بتا دیں۔‘‘ اسامہ نے کہا۔ عمارہ نے اسے اپنے گھر کا ایڈریس سمجھایا اور پھر فون بند کر دیا۔
’’تم نے کسے بلایا ہے۔‘‘ رابعہ نے تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔
’’اسامہ کو۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
’’کون اسامہ‘‘رابعہ نے سوالیہ نظروں سے عمارہ کی طرف دیکھا۔
’’یہ تو میں بھی نہیں جانتی کہ وہ کون ہے۔‘‘ عمارہ نے تذبذب سی کیفیت میں جواب دیا۔
رابعہ پریشان سی ہوگئی۔’’تم اسے اس طرح گھر کیوں بلا رہی ہو؟‘‘
’’کوئی ایسی خاص بات ہے وقت آنے پر آپ کو بتا دوں گی۔‘‘ اس نے ماں کے ہاتھ کو خفیفسا دبایا۔
رابعہ کے حواس پر ابھی تک دہشت طاری تھی۔’’تم نے گھر کا حال دیکھا ہے۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
’’آپ زیادہ نہ سوچیں، بس آرام کریں۔ میں آپ کے پاس ہی ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ وہاں سے اٹھ گئی۔
اس نے ماں کو ظاہر نہیں کیا وہ مبہوت نظروں سے کمرے کی دیواروں کی طرف دیکھ رہی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی لیونگ روم میں داخل ہوگئی۔ گھر کی دیواروں فرنیچر اور گھر کی دوسری اشیاء کو سیاہ دھویں نے اس طرح لپیٹ میں لیا ہوا تھا جیسے پورا گھر ہی خوفناک آگ کی لپیٹ میں آگیا ہو۔ دیواروں پر لگے ہوئے ACاور پلاسٹک کی اشیاء تو بالکل پگھل چکی تھیں۔
یہ سب دیکھ کر عمارہ کا سر چکرا رہا تھا، دل میں جیسے ہول اٹھ رہے تھے۔ سارے ہی کمروں کی حالت ایسی ہی تھی۔ وہ باہر لان میں گئی تو لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اس نے گھر کا فرنٹ دیکھا تو اپنا سر پکڑ لیا۔ بھیانک سیاہ دھویں نے کھڑکیوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوتے ہوئے ہر جگہ سیاہی بھر دی تھی۔ عمارہ اسی طرح پریشان کھڑی تھی کہ اسامہ گیٹ سے اندر داخل ہوا۔
وہ عمارہ کے قریب آیا تو عمارہ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ عمارہ اس سے کچھ کہتی اس نے گھر کے فرنٹ کو ایک نظر دیکھا۔
’’فواد۔۔۔‘‘ اس بار عمارہ کی بھیگی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’تم اتنا سب کیسے جانتے ہو۔‘‘
’’اندر آنے کے لیے نہیں کہو گی۔‘‘ اس نے عمارہ کو شرمندہ سا کر دیا۔
’’اوہ سوری۔۔۔آئیے اندر آئیں۔‘‘
اسامہ نے گھر کی حالت دیکھتی تو وہ خاصا پریشان ہوگیا۔ وہ کچھ دیر رابعہ کے پاس بیٹھا پھر وہ دونوں دوبارہ باہر لان میں بیٹھ گئے کیونکہ اندر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ تسلی سے کوئی بات کر سکتے۔
’’میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ عمارہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’آپ پلیز بیٹھیں گھر کے کوئی حالات ہیں کہ آپ میرے لیے چائے بنائیں جو بات ہم نے شام کو چار بجے کرنی تھی اچھی بات ہے کہ وہ بات ہم ابھی کر لیں۔‘‘
’’میں نے بھی آپ کو اسی لیے بلایا ہے کہ آپ دیکھیں کہ ہم کس طرح ان بدروحوں کے حملے کی زد میں ہیں، نہ جانے کیوں مجھے آپ سے مل کر ایک امید سی ہوگئی ہے کہ آپ ہمارے کام آسکتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ شیطان ہمزا د لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور ہم بے بس تماشہ دیکھ رہے ہیں اور اگر آج میں اپنی ماں کو بھی کھو دیتی تو شاید خودکشی کر لیتی۔‘‘ عمارہ دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ کے رونے لگی۔
’’آپ اس طرح رونے کے بجائے خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کی والدہ کی جان بچائی اور یہ سوچ اب اپنے ذہن سے نکال پھینکیں کہ اب بھی ہم لوگوں کی اموات کا تماشہ دیکھیں گے۔ زرغام کا یہ شیطانی کھیل اب زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ ہم لوگوں کو اس شیطان ہمزاد سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو مجھ پر بھروسا کرنا ہوگا میں جیسا کہوں ویسا کرنا ہوگا۔‘‘
’’تمہارے ذہن میں کیا پلان ہے تم مجھے تفصیل سے بتاؤ۔ میں خود ہی سب کو منا لوں گی۔‘‘عمارہ نے کہا۔
اسامہ اس کے قریب ہو کے بیٹھ گیا’’سب سے پہلے تو مجھے تمہاری اس ’’سب‘‘ والی بات پر اعتراض ہے۔ تم نے جہاد کا اعلان تو کر دیا مگر معقول افراد کی ٹیم نہیں بنا سکی۔ ہماری جنگ ان ویمپائرز سے ہے جو شیطانی قوتوں کے حامل ہیں۔ جس وقت فوجی محاذ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو وہ اپنے گھر والوں کو خدا کے سہارے چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے ہماری ٹیم میں صرف چار لوگ ہوں گے۔ میں تم ساحل اور عارفین ہم چاروں سر پر کفن باندھ کے محاذ کے لیے نکلیں گے۔ باقی سب کو خدا کے سہارے چھوڑ جائیں گے ان خونچکاں شیطان ہمزاد کے خاتمے کے لیے ہمیں یہ کرنا ہوگا۔ اگر میری بات منظور ہے تو تم سب سے بات کر لو۔‘‘
عمارہ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی پھر مہین سے لہجے میں بولی’’مما! اکیلی کیسے رہیں گی اور گھر کی حالت۔۔۔‘‘
اسامہ جذباتی سے انداز میں بولا’’عمارہ! ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ زرغام کئی خطرناک منصوبے تیار کر چکا ہے۔ تم آنٹی کو انکل ظفر کے گھر چھوڑ دینا اور اپنے گھر کو فی الحال ایسے ہی رہنے دو۔۔۔تم آج شام کو ہی سب کو اکٹھا کرو۔ مجھے جہاں آنا ہوگا بتا دینا۔۔۔یاد رہے آج شام کو ہی فیصلہ کر لوکل ہمیں مشن کے لیے نکلنا ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہیں فون کرکے بتا دوں گی۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
اسامہ اپنی کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتا ہوا کھڑا ہوگیا۔’’مجھے کلب جانا ہے کچھ دنوں کے لیے ایک اسٹوڈنٹ کو اپنی جگہ چیف بنانا ہے۔‘‘
’’تمہارا ارادہ اس قدر پختہ ہے۔‘‘ عمارہ نے بھنویں اچکائیں۔
’’ہاں۔۔۔تم لوگ نہ مانے تو اس مشن کے لیے اکیلا نکل جاؤں گا۔‘‘ اسامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
عمارہ اسے باہر تک چھوڑنے لگی۔’’شکریہ۔۔۔میرے لیے وقت نکالنے کا۔‘‘
’’اللہ حاف٭۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اسامہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
(جاری ہے )