اسرائیل کے خلاف او آئی سی کی قراردادِ مذمت
اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ او آئی سی کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حالات کی خرابی کا مکمل ذمے دار اسرائیل ہے۔ عالمی برادری کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیں او آئی سی کے آن لائن اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ فلسطینی شہریوں اور ان کی املاک پر جاری حملے فوری طور پر بند کئے جائیں، یہ حملے عالمی قوانین اور مسئلہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں ہیں۔ اسرائیل، خصوصاً غزہ اور تمام فلسطینی علاقوں میں وحشیانہ فوجی حملوں کے نتیجے میں فلسطینی عوام کے خلاف منظم جرائم سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا پوری طرح ذمے دار ہے۔ او آئی سی کو مشرقی القدس میں سینکڑوں مکانات سے فلسطینیوں کو باہر کرنے خصوصاً شیخ جراح کے حالات بگاڑنے پر تشویش ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی گئی کہ فلسطین پر حملے فوری طور پر بند کرائے جائیں۔ اگر سلامتی کونسل اس بحران میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی تو جنرل اسمبلی سے رجوع کیا جائے گا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالنے کی مذمت کی۔
دوسری جانب فلسطینی بحران پر غور کے لئے سلامتی کونسل کا جو اجلاس طلب کیا گیا تھا وہ بے نتیجہ رہا اور موخر کر دیا گیا اور امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ اعلامیہ جاری کرانے کی کوشش دوسری مرتبہ رکوا دی۔ چین نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کے لئے چین کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ چینی وزیرخارجہ ژانگ ژی نے امریکی رویئے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری فلسطینیوں کا قتلِ عام رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک ملک کی وجہ سے سلامتی کونسل یک زبان ہو کر اپنی آواز نہیں اٹھا پا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لئے سلامتی کونسل سخت قدم اٹھائے اور دو ریاستی حل کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین، ناروے اور تیونس ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے جنہیں تمام رکن ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس راکٹ حملے روکے اور اسرائیل غزہ پر جاری فضائی بمباری بند کرے۔ انہوں نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
او آئی سی کی قرارداد میں جس سلامتی کونسل سے امیدیں وابستہ کی گئی ہیں اور کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہے اس کا تو اجلاس ہی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر موخر کر دیا گیا اور اس میں کوئی قرارداد مذمت تک منظور نہیں ہو سکی اور چین نے اس کا ذمے دار امریکہ کو ٹھہرایا ہے۔ بظاہر لگتا بھی یہی ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کچھ نہیں ہوگا اور اس دوران اسرائیل اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا اور اپنی سیاہ روایات پر عمل کرتے ہوئے پہلے کی طرح نہتے فلسطینیوں کا خون بہاتا رہے گا۔ پہلے بھی جب کبھی اسرائیل کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھا ہے۔ امریکہ ہمیشہ اس کی مدد کو آیا ہے اب بھی یہی ہوا ہے اور اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے خاص طور پر امریکی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اجلاس میں تاخیر امریکہ کی اشیرباد سے ہو رہی ہے اور چین نے امریکہ پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے جس کا اعتراف اسرائیلی سفیر نے خود کیا ہے۔ ان حالات میں او آئی سی کی قرارداد بھی بظاہر کاغذی کارروائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ اس نے بھی سلامتی کونسل ہی سے توقعات باندھی ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل کی کارروائیاں جاری ہیں اور بظاہر لگتا ہے وہ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد ہی یہ سلسلہ روکے گا۔ ماضی میں بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے عملاً اسرائیل کا ہاتھ روکنا تو بڑی بات ہے جو قراردادیں اس کے خلاف منظور کی گئیں وہ بھی اس نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
تازہ بحران کا آغاز بھی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنے سے ہوا کیونکہ یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اس مقصد کے لئے جب بھی فلسطینیوں کے گھر گرائے جاتے ہیں تو ردعمل کو دبانے کے لئے اسرائیل فوجی کارروائیاں بھی شروع کر دیتا ہے۔ تازہ کارروائیاں بھی اس وقت شروع ہوئیں جب فلسطینی مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے لئے جمع تھے۔ اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ یہ لوگ نماز کے بعد احتجاج شروع کر دیں گے اس لئے اسرائیلی فوجیوں نے مسجد کے ایک حصے میں آگ لگا دی ایک طرف آگ لگی تھی اور دوسری طرف اسرائیلی فوجی جشن منا رہے تھے۔ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی کارروائیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں، ان حالات میں سلامتی کونسل میں ایک قرارداد مذمت تک منظور نہیں ہو سکی، البتہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں سے کہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف حملے روک دیں اب اس پر فریقین کا ردعمل کیا ہوتا ہے یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ جارح اور طاقت ور فریق اسرائیل تو اس وقت تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا جب تک اسے معمولی سی مزاحمت کا بھی خدشہ ہے۔ تاہم اس دوران امریکہ کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر برنی سینڈرز کی آواز فلسطینیوں کے حق میں بلند ہوئی ہے اور انہوں نے امریکی حکومت سے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو دی جانے والی چار ارب ڈالر کی فوجی امداد پر نظرثانی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی بلا جواز ہے۔ ہمیں فوری طور پر جنگ بندی کی درخواست کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے امریکی امداد کا استعمال غیر قانونی ہے۔ امریکہ میں اس طرح کی آوازیں پہلے بھی اٹھتی رہتی ہیں لیکن امریکی حکومت کی رگِ جاں پنجہ ء یہود میں ہے اس لئے وہ ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرتی، ان حالات میں او آئی سی کی قرارداد اور سلامتی کونسل کے بے نتیجہ اجلاس سے کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟