میرے ساتھ کام کرو گے ؟؟؟
جناب اکبر عالم کو بچھڑے 9برس ہوگئے....آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے.....!!!!اکبر عالم صاحب ... راجہ اورنگزیب صاحب اور راجہ حسن جلیل ....صحافت میں فرشتے تھے یہ لوگ......آہ!کہاں کھو گئے یہ نگینے!!!
2003سے2007...خبریں کے عروج کا زمانہ...ایک کے بعد ایک شہر سے" جہاں ظلم وہاں خبریں" کا نعرہ .... ان چار سالوں میں خبریں کراچی اور سکھر سٹیشن کا لاہور میں ڈیسک بھی کمال تھا....سینئرز اور جونئیرز کا حسین امتزاج .. .جناب احسن ظہیر...اطہر عارف صاحب...زبیر اسلم....حنیف عاصم...میم سن بٹ.....عباس سرور. ....خواجہ اویس ریاض...ستار نیازی...الیاس فریادی...شیر افضل بٹ...اور خاکسار سمیت بہت سے کولیگز ....ڈیسک کیا تھا..سنٹرل نیوز سے کچھ فاصلے پر" نیوز روم کے اندر نیوز روم"....خبریں کے سخت ماحول میں کام کے ساتھ ساتھ" مذاق رات"....."حسب حال" اور "خبرناک" سا منظر...بیک وقت سنجیدگی اور فہمیدگی...ہوتا یوں کہ جو بندہ مین ڈیسک پر پسند نہ آتا اسے کراچی ڈیسک پر بھیج دیا جاتا کہ "بھگتو"...لیکن پھر ایسا ہوتا کہ وہ "درویش" خبریں چھوڑ دیتا کہ کراچی ڈیسک نہ چھوڑتا...ایسے ہی ایک" ملنگ" نے ایک دن سکھر فون کر دیا کہ پریس روک دو ...بڑی سنگین غلطی چلی گئی ہے ... "عبد اللہ عبداللہ "دو دفعہ لکھا گیا اور جھٹ سے فون بند کر کے "تھرتھلی "مچادی ... وہ تو بعد میں اطہر عارف صاحب نے" بحران" روکا اور ان سے معذرت بھی کی .....
ایسے کیا کیا "لطیفے "پکڑے جاتے کہ اگر جناب ضیا شاہد صاحب کو پتہ چل جاتا تو" بے ہوش "ہو جاتے...پھر ایسی "وارداتوں"پر کئی کئی دن"قہقہوں سے لبریز شو"چلتا رہا....بہر کیف خبریں میں کیا کیا خوب صورت لوگ آئے اور چلے گئے ....ایسے ہی "من موہنے" لوگوں میں جناب اکبر عالم جیسا "سوہنا "بندہ بھی تھا ....کراچی سٹیشن کے جوائنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے...عروس البلاد سے ہوتے ہوئے لاہور آئے اور کراچی ڈیسک پر ہی احسن ظہیر اور میرے ساتھ کرسی لگالی ...کوئی احساس برتری نہ کم تری....نرم خو مگر یکسو...سنجیدگی مگر متبسم چہرہ...محبت آمیز اردو لہجہ .....کبھی کبھی ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتے...احسن ظہیر کی چھٹی والے دن خود میرے ساتھ خبریں بنانا شروع کر دیتے...ہم ریکوئسٹ کرتے کہ سر آپ صرف چیزیں دیکھ لیا کریں تو مان جاتے...خبریں میں ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب عظیم نذیر. .. جوائنٹ ایڈیٹر جناب طاہر پرویز بٹ ...ایڈیٹر فارن ڈیسک جناب خالد چودھری کے بعد وہ ہمارے چوتھے مہربان تھے . ...پھر وہ خبریں تو چھوڑ گئے لیکن ہمیشہ کیلئے محبت بھرا تعلق جوڑ گئے....جہاں بھی گئے رابطہ رہا...اور مرتے دم تک رہا....
روزنامہ جریدہ نکالا تو ہماری سفارش پر چند ایک دوستوں کو ایڈ جسٹ کیا...روزنامہ سٹی42گئے تو میں نے مبارک باد کے لئے فون کیا تو عیلک سلیک کے بعد کہنے لگے کیا میرے ساتھ کام کرو گے؟میں نے برجستہ جواب دیا نہیں سر... ..قہقہ لگایا اور کہا کیوں بھائی....؟؟؟؟؟میں نے کہا سر آپ کی طرح جناب خالد چودھری سے بھی پیار بھرا تعلق ہے اور آج کل روزنامہ ’آج کل‘ بحران کا شکار ہے اور ان ماڑے حالات میں ان کو چھوڑنا مناسب نہیں....اس بات پر بہت خوش ہوئے.....پھر میں بنفس نفیس انہیں ملنے جیل روڈ آفس گیا....بڑے تپاک سے ملے...گپ شپ کے ساتھ چائے پلائی.....کہنے لگے خود نہیں آنا تو چلو اخبار کے لئے کچھ بندے ہی دیں....میں نے چند دوستوں کو ریکمنڈ کیا....جن میں ایک دو کو ہائر بھی کیا......ایک دفعہ اپنے گھر دعوت پر بلایا اور اپنے ہاتھ سے کھانا ڈال کر دیتے رہے....اس خلوص بھرے لنچ کی لذت آج بھی محسوس ہوتی ہے...جب بھی ملے مسکراتے ہوئے ملے .....جب کبھی فون کیا مسکراتے ہوئے ہیلو کہا...یقین ہے کہ زندگی بھر مسکرانے والے اکبر عالم صاحب جنت کے بالاخانوں پر بھی یوں ہی مسکرا رہے ہونگے.....!!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔