سامنے کھیتوں کے پار آ سمان کو چھوتی راکا پوشی تھی،اس کے قدموں میں سبز گھاس کے میدان ا ور گندم کے سنہری کھیت تھے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :78
وہی قربتیں، وہی فا صلے! (25 جون 2012)
سہ پہر ڈھل رہی تھی ۔ہم غلمت میں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے سڑک کھلنے کا نتظار کر رہے تھے۔ بہت سی دوسری گاڑیاں بھی ہماری ویگن کے آگے پیچھے طویل قطار میں کھڑی تھیں۔سامنے کھیتوں کے پار آ سمان کو چھوتی راکا پوشی تھی۔ وہ اتنی قریب تھی کہ اس کی سفید برفیں نیچے زمین تک دکھائی دیتی تھیں۔ اس کے قدموں میں سبز گھاس کے میدان ا ور گندم کے سنہری پڑتے سبز کھیت تھے جن کا سلسلہ سڑک تک پھیلا ہوا تھا۔ پا پلر کے پیڑ وں کی قطاریں کھیتوں کے گرد خدام کی طرح حصار بنائے مودب کھڑی تھیں۔راکا پوشی کا حسن یہاں سے بہت قریب اور واضح نظر آتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اس کے اور قریب جایا جائے لیکن فضا ءکے خوف اور غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے ایسا کرنا مشکل تھا۔ آ گے کچھ فا صلے پر سڑک کے درمیان قنات لگا کر راستہ بند کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے سے ایک عورت کے تقریرکرنے کی ایسی آواز آرہی تھی جیسے مجلس پڑھ رہی ہو۔ یہ وادی نگر کا علاقہ تھاجو شیعہ آبادی ہے اور یہاں کے لوگ کچھ روز قبل ضلع کوہستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والے شیعوں کے قتل کے خلاف احتجاج کرر ہے تھے۔سڑک پر عورتوں نے دھرنا دے رکھا تھا۔ سرگو دھا کا ایک صحا فی دوران ِ سفر مجھ سے متعارف ہوچکا تھا ۔ اسے میرا پتا، فون نمبر، ہنزہ کی معلومات، فرقہ واریت، سیاست پر تبصرہ، واپس جاکر پھر ملنے کا وعدہ ۔۔۔ غرض بہت کچھ چاہیے تھا۔ میں راستہ بند ہونے سے پریشان تھا اور اس سے بچنا چاہتا تھا مگر وہ بہت چِپکو آدمی تھا۔میں اس سے کترا کر جہاں جاتا وہ وہیں پہنچ جاتا۔
”لو، وا جی وا، آ پ ادھر بیٹھے ہیں ہم سر جی کواُدھر ڈھونڈ رہے تھے۔ اچھا چوہان صاحب یہ بتائیںکہ۔۔۔۔۔“
پھر ایک مہمل، بے مقصد اور بے وقت گفت گو کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
کافی دیر بعدسامنے سے قنات ہٹتی دکھائی دی تو راہ میں رکے مسافر خوش امیدی سے ادھر دیکھنے لگے لیکن وہاں ایک مردانہ جلوس تھا جس کو راستہ دیا گیاتھا۔ یہ مظاہرین نگر سے پیدل گلگت جا رہے تھے۔ یہ ایک چُپ جلوس تھا۔ ان کے پاس احتجا جی بینر تھے اور وہ کوئی شور مچائے یا نعرے لگائے بغیر خامو شی سے گزر رہے تھے۔
” سر جی یہ سارا رَولا امریکا نے ڈلوایا ہوا ہے۔ “ صحافی نے بند سڑک پر جلسے اور جلوس پر صحافیانہ انکشاف نما تبصرہ کیا۔
” نہیں بھائی، یہ مسئلہ المریکا کی دریافت سے بہت پہلے کا ہے۔ “ میں نے ’بہت‘ کو لمبا کر کے تلخی سے کہا. اس نے تعجب اور صدمے سے میری طرف دیکھا اور خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر بے یقینی اور الجھن تھی۔
جلوس گزرا تو سڑک کھل گئی اور ہم ایک بار پھر علی آباد میں تھے۔
علی آباد کی حا لت بہت بری تھی۔ سڑکیں کھدی ہوئی تھیں۔ ہر طرف مٹی دھول اڑتی تھی۔علم ہوا کہ چائنہ والے عطا ءآ باد والے ارضی پھسلاؤ کے بعد بہتر سڑ کیں بنا رہے ہیں۔ سڑکیں کھدنے کی وجہ سے بجلی اور پانی کانظام بھی ختم ہو چکاتھا۔ ہو ٹل میں جاکرسامان رکھا اور نڈھال بستر پر گر گیا۔ شام ہوتے ہی علی آباد تاریکی میں ڈو بنے لگا تھا۔ ہو ٹل کے مینیجر نے پہلے تو وافر پانی کا وعدہ کر کے ہمیں کمرے لینے پر مائل کیا تھا لیکن اب قطعی بے لحاظی کا مظاہر کرتے ہوئے پانی کی ایک ایک بالٹی غسل خانے میں رکھ دی تھی اور صبح تک اسی سے مونھ ہاتھ یا اس سے نچلے درجے کے اعضا ءدھونے اور گزارہ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد ابتدائی طور پر ہاتھ مونھ دھونے کا فیصلہ کیا گیا پھر بازار گئے۔ بجلی بند تھی لہٰذا گیس کے بلب کی دھندلی روشنی میں کھانا کھا کر کمروں میں آکر سو گئے۔صبح ہم نے عطاءآباد جھیل اور پسو پُل پر جاناتھا۔ طاہر میرے ساتھ تھا اور پسو پُل عبور کرنا ہما رے منصوبے کا حصہ تھا۔
اگلی صبح پھر سڑک کنارے بہت سے اسپیشل گاڑی لے جانے والے ڈرائی ور ہمارے گرد چکر لگاتے تھے۔ ہم گاڑی بُک کر نے ہی والے تھے کہ ایک مقامی آ دمی نے مجھے بتایا ”عطاءآباد کا راستہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔ یہ ڈرائی ور ٹورسٹ کو لے جاتا ہے اور راستے میں چھو ڑ دیتا ہے۔“
ہم نے اس کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے پسّو جانے کا ارادہ ترک کردیا اور علی آباد گھومنے لگے۔سڑک کے ساتھ ہی ایک دیوار پر سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودے کے نیچے دب کر شہید ہونے والے فوجی جوانوں کی تصاویر والا بینر آویزاں تھا جس کے آگے زمین پر بہت سے تازہ پھولوں کے گل دستے اور چند بجھی ہوئی موم بتیاں تھیں۔تقریباً اڑھائی ماہ پہلے 7 اپریل کو سیاچن گیاری سیکٹر میں 4000 میٹر کی بلندی پر ایک سو چالیس فوجی اور سیولین جوان 70 فٹ اونچے اور ایک مربع کلو میٹر تک پھیلے برفانی تودے تلے دب کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ تصاویر ان شہداءکی تھیں جن کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔
پسّو کا راستہ کھلنے کا سرِ دست کوئی امکان نہیں تھا لہٰذاہم راستہ کھلنے کا انتظار کر نے کے لیے کریم آباد چلے گئے۔ ہو ٹل بلیو مون بند تھا اس لیے ورلڈ روف ہو ٹل میں ڈیرے ڈال دیے۔ کامران ایک بھلا آ دمی تھا۔ اس نے ہمیں اچھے کمرے مناسب کرائے پر دے دیے۔ ابھی ہم کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ طاہر کے گھر سے فون آیا جسے سن کر وہ پریشان ہوگیا۔ پتہ چلا کہ اس کے والد کی طبیعت خراب ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں۔ سب کی فوری واپسی مشکل تھی کیوں کہ بغیر بکنگ ایک بس میں اتنی نشستیں ملنے کا امکان نہیں تھا لہٰذا سب کے مشورے سے طاہر نے اسی وقت سا مان باندھا اور گھر روانہ ہو گیا۔ میں اور ندیم اس کے ساتھ علی آباد گئے اور اسے سوا بارہ بجے والی ویگن میں گلگت روانہ کیا۔ جہاں سے اسے پنڈی کی بس مل جاتی۔ ہم نے بھی پسّو کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور اگلے روز خود بھی لو ٹ آئے۔ پسو پُل ایک بار پھر دور ہو گیاتھا۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔