رابرٹ کلائیو ہند میں ”سلطنت انگلشیہ“ کا بانی
مصنف : ای مارسڈن
ارکاٹ کا محاصرہ:
جس سال انگریزوں اور فرانسیسیوں میں لڑائی شروع ہوئی تھی اسی سال ایک غریب لڑکا کمپنی کی ملازمت میں بطور محرر بھرتی ہو کر مدراس آیا تھا۔ اس کی عمر صرف 19 سال تھی، نہ پیسہ پاس تھا، نہ کوئی یارومددگار تھا۔ خدا کی قدرت تھوڑے ہی عرصے میں ایک بڑا جنگی افسر ہو کر مشاہیرِ انگلستان کے زمرے میں شمار ہونے لگا۔ اس کا نام رابرٹ کلائیو تھا۔
جب فرانسیسیوں نے مدراس فتح کر لیا تو یہ ہندوستانیوں کا بھیس بدل کر نکل گیا اور قلعہ سینٹ ڈیوڈ میں پہنچا۔ 3 مرتبہ فرانسیسیوں نے اس قلعہ کے لینے کی کوشش کی مگر میجر لارنس نے اس بہادری سے قلعہ کی حفاظت کی کہ فرانسیسیوں کی سب کوشش اکارت گئی۔ کلائیو نے سپہ گری کا پہلا سبق یہیں سیکھا تھا۔ یہ ایسی دلاوری کے ساتھ لڑا کہ گورنر نے محرری سے سبکدوش کر کے اسے فوج میں ایک چھوٹا سا افسری کا عہدہ دے دیا۔
ہندوستانی سپاہی کلائیو سے ایسے مانوس تھے کہ اس کی کمان میں ہر جگہ جانے کو تیار اور ہر کام کے کرنے پر کمربستہ تھے۔ یہ لوگ اسے ”ثابت جنگ“ کہا کرتے تھے اور اسی نام سے بعد میں کلائیو تمام ہند میں مشہور ہوا اور نام بھی نہایت موزوں تھا، کیونکہ جیسا تلواروں کی چھاﺅں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں سینہ سپر کیے لڑتا تھا، ویسا ہی اطمینان اور جمعیتِ خاطر کے ساتھ سوچ سمجھ کر فوج کی کمان کرتا تھا۔
1748ءمیں بوڑھے نظام الملک نے انتقال کیا۔ اس کا بڑا بیٹا ناصر جنگ باپ کی جگہ صوبیدار بنا، لیکن اس کا بھتیجا مظفر جنگ بھی صوبیداری کےلئے قسمت آزمائی کرنا چاہتا تھا۔ وہ پانڈے چری پہنچا اور فرانسیسیوں سے مدد کا خواستگار ہوا۔ اس وقت چندا صاحب ایک اور اولوالعزم سردار تھا۔ یہ چاہتا تھا کہ انورالدین کی جگہ خود کرناٹک کا نواب ہو جائے۔ یہ بھی پانڈے چری گیا اور ڈوپلے سے مدد کی درخواست کی۔
ڈوپلے نے خوشی کے ساتھ دونوں کو مدد دینے کا وعدہ کیا۔ وہ تو خدا سے چاہتا تھا کہ ایسا موقع ہاتھ آئے۔ پس اس نے سپاہیوں کی ایک قوی جماعت بسی نامی ایک بہادر افسر کے ساتھ روانہ کی۔ تینوں کی فوج نے ارکاٹ پر چڑھائی کی۔ انور الدین کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا۔ ارکاٹ حملہ آوروں کے قبضہ میں آیا۔ انور الدین کا بیٹا محمد علی ترچناپلی کی طرف بھاگا اور وہاں اپنی حفاظت کا سامان کرنے لگا۔ حملہ آور دکن کی طرف بڑھے۔ ناصر جنگ بھی مارا گیا اور بُسی بڑے کرّوفر کے ساتھ حیدر آباد میں داخل ہوا۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔