کراچی میں دہشت گردی کی لہر

  کراچی میں دہشت گردی کی لہر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی میں بولٹن مارکیٹ کے قریب بم دھماکے سے ایک خاتون جاں بحق جبکہ دس افراد زخمی ہو گئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ پیر کی شب دھماکہ اس وقت ہوا جب بولٹن مارکیٹ میں خاصی گہما گہمی تھی اور معمول کی چہل پہل جاری تھی۔ ابتدائی شواہد کے مطابق دھماکہ موٹرسائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے اس وقت کیا گیا جب ایک موبائل وین وہاں سے گزر رہی تھی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنائی دی۔ دھماکے کے بعد بم ڈسپوزل سکواڈ، رینجرز، پولیس اور فائر بریگیڈ  کی گاڑیاں  موقع پر پہنچ گئیں۔ زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا  جہاں ایک خاتون جاں بحق ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سول ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دیا اور آئی جی سے اس دھماکے کی نوعیت کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ پولیس ذرائع کے مطابق دھماکے کا  نشانہ پولیس موبائل تھی۔ دھماکے میں ایک سپاہی اور ایک اے ایس آئی سمیت 16زخمی ہوئے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران  کراچی میں یہ  دہشت گردی کی تیسری واردات ہے۔ اس سے پہلے صدر کے علاقے میں ایک ایسا ہی دھماکہ ہوا تھا، جس میں کئی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس دھماکے میں بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ کرنے کی تکنیک استعمال کی گئی تھی۔ ابھی اس کی تفتیش جاری تھی کہ یہ دوسرا دھماکہ ہو گیا۔دونوں دھماکوں میں ہر درجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کی اس تازہ لہر کا آغاز کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکے سے ہوا تھا جس میں ایک خاتون نے اس وقت خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جب چینی اساتذہ کی وین اس کے قریب سے گزر رہی تھی۔ وین میں موجود چینی اساتذہ ڈرائیور سمیت لقمہء اجل بن گئے تھے۔ یہ دہشت گردی کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت سنگین  واقعہ تھا جس میں طے شدہ منصوبے کے تحت چینی اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا۔ خود کش حملہ آور کی شناخت ہو جانے کے باوجود ابھی تک اس گروہ میں شامل دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اس سنگین واقعے پر وزیر اعظم نے چینی ہم منصب کو فون کر کے اظہار تعزیت کیا تھا اور ملزموں کی جلد گرفتاری کا یقین دلایا تھا۔اطلاعات کے مطابق چین نے چینی زبان سکھانے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کو بند کر کے تمام اساتذہ واپس بلا لئے ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے بہت بڑا نقصان ہے جو کراچی میں دہشت گردی کے بعد پاکستان کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ کراچی میں موجود قانون نافذ کرنے والے ادارے حساس ایجنسیاں اور دیگر متعلقہ محکمے اپنی پوری کوشش کے ساتھ دہشت گردی کے مجرموں کو قانون کی گرفت میں لاتے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے ملزموں کی عدم گرفتاری کے باعث چینی اساتذہ میں عدم تحفظ پیدا ہوا اور چین نے انہیں واپس بلا لیا۔  اس واقعے کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ کراچی میں سیکیورٹی انتہائی سخت کی جاتی، انٹیلی جنس کا جال بچھایا جاتا اور پولیس و رینجرز کو حد درجہ الرٹ رہنے کی ہدایت کی جاتی مگر ایسا نہیں ہو سکا اور کراچی یونیورسٹی میں دہشت گردی کے واقعے سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی لہر تھم نہ سکی۔ اس کے بعد شہر کے انتہائی بارونق علاقوں میں مزید دو دھماکے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ایک خاص جماعت یا گروہ نے کراچی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے شہر میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا شہر کے امن کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ ان واقعات سے صاف لگتا ہے کہ ان کے  پیچھے جو گروہ بھی ملوث ہے، اس کے شہر میں ٹھکانے موجود ہیں کیونکہ وہ واردات کے بعد بآسانی روپوش ہو جاتے ہیں۔ کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سیف سٹی کے کیمرے تک موجود نہیں ہیں، جہاں کہیں کیمرے ہیں وہ کام نہیں کرتے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ہر واردات کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ سیف سٹی منصوبے کو مکمل کیا جائے گا مگر وقت گزرنے کے بعد پھر وہی غفلت اور معاملات شروع ہو جاتے ہیں۔ کراچی کی آبادی دوکروڑ سے زائد ہے  اور اس شہر میں اگر دہشت گردوں کو اسی طرح کھلا چھوڑ دیا گیا تو وہ آئے روز اپنی مذموم حرکات سے تباہی مچائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام اداروں کے افسرشامل ہوں اور جو  دہشت گردی کے ان واقعات کا جائزہ لیں اور موثر اقدامات کئے جائیں۔ جس قسم کی لہر اس وقت کراچی میں نظر آ رہی ہے، اس سے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جن سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ انٹیلی جنس نظام کو متحرک کیا جائے،قانون نافذ کرنے والے ادارے زیادہ چوکس رہ کر اپنے فرائض ادا کریں۔ چینی اساتذہ پر حملے کا واقعہ کراچی کے تمام متعلقہ اداروں بشمول سندھ حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر یہ حل ہو جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ باقی دو واقعات کی کڑیاں بھی اسی سے جا ملیں۔ کراچی اس وقت ملک کا وہ واحد بڑا شہر ہے جہاں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ماضی میں اس شہر کے انٹیلی جنس اداروں، رینجرز اور پولیس نے بڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے شہر کو امن اور امان کا گہوارہ بنایا تھا،  اب ایک بار پھر انہیں دہشت گردی کے نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ امید کی جانی چاہئے وہ اپنے تمام وسائل اور مہارت کو بروئے کار لا کر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو قانون کی گرفت میں لا کر کراچی کو اس کا امن دوبارہ لوٹائیں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -