فوج، تنقید اور حکمران
ہمارے ہاں دانشور بننے کیلئے سب سے آسان کام یہ سمجھا جاتا ہے کہ فوج پر تنقید شروع کر دیں یعنی فوج کو ایک آسان ہدف بنا لیا گیا ہے کہ شاید اس طرح اغیار کی نظر میں ہمارا قد کاٹھ بڑھ جائے گا یا ہماری قدرو منزلت ہو جائے گی تو ایسا سوچنے والے سراسر اندھیرے میں ہیں۔کیوں کہ پاکستان کے غیور عوام ان چند مٹھی بھر عناصر کی شرپسندی والی سوچ کو مسترد کر چکے ہیں اور فوج کے ساتھ قوم کا ایسا تعلق قائم ہو چکا ہے جو اٹوٹ ہے جو نہ مٹنے والا ہے۔ بنیادی طور پہ سوشل میڈیا پر جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے تو اس میں غیر ملکی آلہ کار کام کر رہے ہیں جو باہر بیٹھ کر معصوم لوگوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور لوگوں کو فوج کیخلاف بھڑکانے کی سازش رچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا تدارک اب وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ فوج سیاست زدہ ہو گئی ہے یا فوج سیاست دانوں کو کام نہیں کرنے دیتی تو جب فوج کہتی ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں تو انہیں پھر خوامخوا سیاست زدہ کیوں کیا جاتا ہے پھر انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت یا سیاسی الجھنوں کو سلجھانے کا فریضہ کیوں سونپا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج سیاست دانوں کو کام نہیں کرنے دیتی اور اپنی حدود میں یا کینٹ میں ہر بہترین سہولت میسر ہے لیکن سویلین علاقوں میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے تو ایسا کہنے والے سیاست دانوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ انہوں نے ستر سالوں میں ملک کیلئے کون سا کام کیا ہے کہ انہیں سراہا جائے۔ یا ستر سالوں میں کبھی فوج نے انہیں کوئی کام کرنے سے روکا ہو کہ آپ نے غریب لوگوں کیلئے ہسپتال نہیں بنانے، سڑکیں نہیں بنانی، سکول نہیں بنانے یاعوام کو صحت عامہ کی سہولتیں میسر نہیں کرنی۔ یقینی طور پر فوج نے کبھی سیاست دانوں کو حکمرانوں کو ایسا کرنے سے نہیں روکا بلکہ فوج تو ہر مصیبت کی گھڑی میں سویلین اداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، زلزلہ آئے، سیلاب ہو یا کوئی آسمانی آفت ہو یا زمین سے کوئی آفت ہم پر آ پڑے تو فوجی جوان امدادی کاموں کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔فوج نے کبھی کسی حکمران کا ہاتھ نہیں روکا کہ وہ عوام کو سہولتیں نہ پہنچائے اور اپنی جیبیں بھریں۔
یہ حکمران ہی ہیں جو اپنی ناکامیوں کا بوجھ فوج پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ذہن سازی کرتے ہیں کہ فوج نے انہیں کام کرنے سے روکا ہے۔کبھی آپ تصور کریں کہ سیاچن کی چوٹیوں پر منفی پچاس کی سردی میں جو ہڈیوں کے گودے تک کو جما ڈالے اس یخ بستہ ماحول میں موجود سپاہی کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ فوج پر تنقید کو سن کر برداشت بھی کرتا ہو گا اور اس سب کے باوجود جسم کو چیرنے والی سردی میں وہاں تنقید کرنے والوں ہی کی خاطر پہرہ دے رہا ہوتا ہے۔ چولستان اور تھر کے صحراؤں میں جہاں دن کے وقت چرند پرند بھی پھڑپھڑانے سے پناہ مانگتے ہیں شدید گرمی میں موجود بارڈر پر کھڑا سپاہی تنقید سے ماورا جب ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے تو وہ تنقید جو ہم فوج پر کرتے ہیں وہ سن کر صحرا کی گرمی اور تنقید کی گرمی اس پر کیا اثر کرتی ہو گی کبھی ایسا بھی سوچا ہے ان تنقید کرنے والوں نے؟۔ کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ فوج ہمارا سارا بجٹ کھا گئی اور سارے پیسے دفاع پر لگا دیئے جو کہ انتہائی بے بنیاد الزام ہے اور اگر کچھ لمحے کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ فوج ساٹھ فیصد بجٹ اپنے اوپر لگاتی ہے تو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہماری ہزاروں کلو میٹر سرحد بھی تو وہ محفوظ کرتے ہیں۔اسرائیل کی چوتھی خاتون وزیراعظم گولڈا میئر نے جب عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کی خراب اقتصادی حالت کے باوجود امریکہ سے اربوں ڈالرکا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا تو گولڈا میئرپر تنقید کی گئی کہ وہ ملک کی خراب اقتصادی حالت کے باوجود اربوں ڈالر عوام پر لگانے کی بجائے جنگی اسلحہ خریدنے پر لگا رہی ہیں تو جنگ جیتنے کے بعد انہوں نے تاریخی جواب دیا کہ میں نے اسلحہ خریدنے کا یہ استدال مسلمانوں کے عظیم پیغمبر حضرت محمد صلعم کی سوانح حیات سے لیا ہے کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے اہل خانہ کے پاس گھر میں کھانے کو پیسے نہ تھے لیکن ان کی دیوار پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کی اسی میراث کی وجہ سے ان کے صحابہ نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کی جو اس بات کا مظہر تھیں کہ جنگ جیتنے کیلئے اسلحہ کا ہونا اور پھر اس جذبے کا ہونا کتنا ضرروی ہے۔ گولڈا میئر کی یہ بات کتنی صادق ہے کہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران عرب ممالک سے چھینے گئے علاقوں کیلئے عرب آج بھی سرگرداں ہیں اور اسرائیل اسلحہ سازی میں فوقیت کی بنا پر عربوں کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہے۔ اس لئے فوج اور اسلحہ سازی پر بجٹ لگ بھی گیا تو چنداں پرواہ نہیں ہے کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ دشمن ہمارے اسلحہ اور فوجی طاقت کی ہیبت کی وجہ سے پاکستان سے ٹکرانے سے گھبراتا ہے اور یہ لوگ جو فوج پر تنقید کر کے خود کو دانشور کہلانے کے شوقین ہیں ان کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانا پڑے گی کیوں یہ یہ مٹھی بھر عناصر نہ تو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے مفادات پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ پاکستان اور پاکستان کی عوام اور فوج ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں یہی حقیقت ہے۔