رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
آج پاکستان کے حالات سیاست کے گرداب میں پھنسے ہیں اور قوم تذبذب کا شکار ہے عوام کی تشویش کچھ اس لئے بھی بڑھتی جاتی ہے کہ حال ہی میں سری لنکا میں ہونے والی سیاسی معاشی صورتحال نے پوری قوم کو فکر میں مبتلا کردیا ہے کہ آخر ہمارا کیا ہوگا؟یہی سوال ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر تازیانے برسا رہا ہے کہ آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں دشنام طرازیوں کے سلسلے ہیں ہر سیاسی لیڈر دوسرے کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے ڈالر نے ایسی اڑان بھری ہے کہ ہاتھ نہیں آرہا ملک جو پہلے سے مہنگائی کی آگ میں جل رہا تھا اس پر سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ایک غیر یقینی صورتحال ہے عمران خان صاحب عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر اور بھی آگ بگولہ ہو چکے ہیں انہیں صرف جلد از جلد کسی بھی طرح پھر سے مسند نشیں ہونا ہے خان صاحب شریف برادران زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے لتے لے رہے ہیں اور حکومت سے وابستہ لوگ عمران خان کو آئینہ دکھا رہے ہیں انکی اس سیاسی جنگ کے درمیان نقصان عوام کا ہورہا ہے یہاں صرف عمران خان ہی عوام کے درپے نہیں سب ہی اپنے اپنے تئیں کم نہیں کررہے آج ہر سیاسی جماعت جلسوں میں سبقت لے جانا چاہتی ہے اور جلسوں پہ کتنے اخراجات اٹھتے ہیں کتنا پیسہ ضائع کیا جارہا ہے یہ بھی ہم اپنا نقصان ہی کررہے ہیں اور جلسوں میں عوام کے لئے کوئی نئی بات نہیں وہی گھسا پٹا ریکارڈ چل رہا ہے عمران خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین کو لتاڑ رہے ہیں اور وہ انکی خبر لے رہے ہیں زرداری صاحب عوامی محبت کا دم بھر رہے ہیں نواز شریف صاحب کا دعویٰ ہے وہ عوام کے بہی خواہ اور عمران خان صاحب اپنے انداز میں عوام کو اپنا گرویدہ بنانا چاہتے ہیں ان تمام سیاستدانوں کی سیاسی مخالفتیں ذاتی رنجشوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور جب بات ذاتیات تک پہنچتی ہے تو دوسرا پھر کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا جیسے ان سیاستدانوں کی ذاتی رنجشوں میں انہیں عوامی مشکلات کا اندازہ نہیں ہورہا عوام کے لئے تو گذر بسر بھی مشکل ہوچکی اور یہ سب ہمارے سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے ملک کو قرضہ لے لے کر شکستہ حال کردیا اور اب صورت یہ ہے کہ ہمیں قرض کا سود دینے کے لیے بھی قرض لینا پڑرہا ہے ہمارا تو وہ حال ہوا ؎
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
حقائق اور افسانوں میں کچھ تو فرق ہوتا ہے ہم نے بس خواب دیکھے اور دکھائے ہیں لیکن ان کی تعبیر کے لئے چنداں کوشش نہیں کی ٹھیک ہے پچھلی حکومتوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی لیکن عمران خان صاحب نے تو حد ہی کر دی اس قدر قرض لیا کہ تاریخ کو ہی مات کردیا اور آج پاکستان کو تاریخی مقروض کرکے پھر سے خان صاحب اقتدار کے متمنی ہیں حالانکہ خان صاحب نے عوام کے لئے کچھ کیا ہوتا تو اپوزیشن بھلا کیا بگاڑ پاتی انکا؟ جب خان صاحب نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو خان صاحب کے آتے ہی سونا جو صرف چالیس پچاس ہزار تولہ تھا وہ ایک لاکھ چالیس پر جا پہنچا حالانکہ غریب آدمی جیسے تیسے اپنی بیٹی کی رخصتی پر اس کے کان ڈھانپ ہی لیتا تھا پھر حج اس قدر مہنگا کردیا کہ اب یہ صرف امراء ہی کر سکیں گے پہلے غریب آدمی اپنے فرائض سے فارغ ہوکر سوچتا تھا کہ اس نے بچے بیاہ لئے اب وہ حج ضرور کرے گا لیکن خان صاحب کی اسلام دوستی حج کے مہنگا ہونے کی صورت میں بھی آشکار ہوچکی ہے اور بھی بہت کچھ ہوا خان صاحب کے اقتدار میں جسکی تفصیل بہت بار بیان کر چکا اب تو تھک گئے ہیں ان حکایات کو بیان کرتے لیکن یہ محلات میں رہنے والے عام آدمی کے مسائل سے کیا واقف ہونگے کیا نواز شریف کیا زرداری کیا عمران خان سب ہی شاہانہ مزاج رکھتے ہیں اور ہمارے ہمیشہ سے وزارتوں کے بھوکے حضرات وہ بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے شیخ رشید صاحب تو برملا فوج کو دعوت دے رہے ہیں ہمارے ایسے ہی سیاستدانوں نے فوج کو متنازعہ بنایا ہے ورنہ ہماری بقا اور فلاح کی ضامن فوج غیر جانبدار ہے ہلکی پھلکی مداخلت ایک فوج ہی کیا سب کی ہوتی ہے اور وہ مداخلت بھی سمجھنے سمجھانے تک محدود رہتی ہے لیکن ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جو ہمار ازلی حریف ہے وہ پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا پاکستان کی افواج کے کردار پر بھارت نے ہمیشہ سے وار کیا ہے لیکن اللہ کے فضل سے افواج پاکستان ہمیشہ سرخرو ہوئی آج فوج کو سیاسی دعوت دینے والے ہمارے سیاستدان ایک طرح سے بھارت کے معاون ثابت ہورہے ہیں ایسے حضرات کی حوصلہ شکنی لازم ہو چکی ہے انہیں عوام کے دکھ درد سے کچھ واسطہ نہیں انہیں صرف کسی نہ کسی طرح کرسئی اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے آج ہمارا ملک ان تمام سیاستدانوں سے اس بات کا متقاضی ہے کہ انہیں پاکستان کے لئے اپنی سیاسی لڑائیاں کچھ وقت کے لئے روک دینا چاہئیں تاکہ پاکستان مستحکم ہو ترقی کرے عوام خوش حال ہوں پاکستان قرض جیسی بیماری سے شفایاب ہوجائے تو پھر یہ آپس کی لڑائیاں لڑ لیں آج پاکستان میں بھی پاکستان کے مستقبل کے لئے طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور دنیا بھی ہم پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان مضبوط ہوگا تو ہم مظبوط ہونگے اس لئے ہمیں پاکستان کو مظبوط کرنے کے لئے پختہ عزم کرنا ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں تمام اختلافات بھلا کر پاکستان کے لئے ایک ہوجائے ۔
آج پاکستان کے حالات سیاست کے گرداب میں پھنسے ہیں اور قوم تذبذب کا شکار ہے عوام کی تشویش کچھ اس لئے بھی بڑھتی جاتی ہے کہ حال ہی میں سری لنکا میں ہونے والی سیاسی معاشی صورتحال نے پوری قوم کو فکر میں مبتلا کردیا ہے کہ آخر ہمارا کیا ہوگا؟یہی سوال ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر تازیانے برسا رہا ہے کہ آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں دشنام طرازیوں کے سلسلے ہیں ہر سیاسی لیڈر دوسرے کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے ڈالر نے ایسی اڑان بھری ہے کہ ہاتھ نہیں آرہا ملک جو پہلے سے مہنگائی کی آگ میں جل رہا تھا اس پر سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ایک غیر یقینی صورتحال ہے عمران خان صاحب عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر اور بھی آگ بگولہ ہو چکے ہیں انہیں صرف جلد از جلد کسی بھی طرح پھر سے مسند نشیں ہونا ہے خان صاحب شریف برادران زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے لتے لے رہے ہیں اور حکومت سے وابستہ لوگ عمران خان کو آئینہ دکھا رہے ہیں انکی اس سیاسی جنگ کے درمیان نقصان عوام کا ہورہا ہے یہاں صرف عمران خان ہی عوام کے درپے نہیں سب ہی اپنے اپنے تئیں کم نہیں کررہے آج ہر سیاسی جماعت جلسوں میں سبقت لے جانا چاہتی ہے اور جلسوں پہ کتنے اخراجات اٹھتے ہیں کتنا پیسہ ضائع کیا جارہا ہے یہ بھی ہم اپنا نقصان ہی کررہے ہیں اور جلسوں میں عوام کے لئے کوئی نئی بات نہیں وہی گھسا پٹا ریکارڈ چل رہا ہے عمران خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین کو لتاڑ رہے ہیں اور وہ انکی خبر لے رہے ہیں زرداری صاحب عوامی محبت کا دم بھر رہے ہیں نواز شریف صاحب کا دعویٰ ہے وہ عوام کے بہی خواہ اور عمران خان صاحب اپنے انداز میں عوام کو اپنا گرویدہ بنانا چاہتے ہیں ان تمام سیاستدانوں کی سیاسی مخالفتیں ذاتی رنجشوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور جب بات ذاتیات تک پہنچتی ہے تو دوسرا پھر کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا جیسے ان سیاستدانوں کی ذاتی رنجشوں میں انہیں عوامی مشکلات کا اندازہ نہیں ہورہا عوام کے لئے تو گذر بسر بھی مشکل ہوچکی اور یہ سب ہمارے سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے ملک کو قرضہ لے لے کر شکستہ حال کردیا اور اب صورت یہ ہے کہ ہمیں قرض کا سود دینے کے لیے بھی قرض لینا پڑرہا ہے ہمارا تو وہ حال ہوا ؎
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
حقائق اور افسانوں میں کچھ تو فرق ہوتا ہے ہم نے بس خواب دیکھے اور دکھائے ہیں لیکن ان کی تعبیر کے لئے چنداں کوشش نہیں کی ٹھیک ہے پچھلی حکومتوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی لیکن عمران خان صاحب نے تو حد ہی کر دی اس قدر قرض لیا کہ تاریخ کو ہی مات کردیا اور آج پاکستان کو تاریخی مقروض کرکے پھر سے خان صاحب اقتدار کے متمنی ہیں حالانکہ خان صاحب نے عوام کے لئے کچھ کیا ہوتا تو اپوزیشن بھلا کیا بگاڑ پاتی انکا؟ جب خان صاحب نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو خان صاحب کے آتے ہی سونا جو صرف چالیس پچاس ہزار تولہ تھا وہ ایک لاکھ چالیس پر جا پہنچا حالانکہ غریب آدمی جیسے تیسے اپنی بیٹی کی رخصتی پر اس کے کان ڈھانپ ہی لیتا تھا پھر حج اس قدر مہنگا کردیا کہ اب یہ صرف امراء ہی کر سکیں گے پہلے غریب آدمی اپنے فرائض سے فارغ ہوکر سوچتا تھا کہ اس نے بچے بیاہ لئے اب وہ حج ضرور کرے گا لیکن خان صاحب کی اسلام دوستی حج کے مہنگا ہونے کی صورت میں بھی آشکار ہوچکی ہے اور بھی بہت کچھ ہوا خان صاحب کے اقتدار میں جسکی تفصیل بہت بار بیان کر چکا اب تو تھک گئے ہیں ان حکایات کو بیان کرتے لیکن یہ محلات میں رہنے والے عام آدمی کے مسائل سے کیا واقف ہونگے کیا نواز شریف کیا زرداری کیا عمران خان سب ہی شاہانہ مزاج رکھتے ہیں اور ہمارے ہمیشہ سے وزارتوں کے بھوکے حضرات وہ بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے شیخ رشید صاحب تو برملا فوج کو دعوت دے رہے ہیں ہمارے ایسے ہی سیاستدانوں نے فوج کو متنازعہ بنایا ہے ورنہ ہماری بقا اور فلاح کی ضامن فوج غیر جانبدار ہے ہلکی پھلکی مداخلت ایک فوج ہی کیا سب کی ہوتی ہے اور وہ مداخلت بھی سمجھنے سمجھانے تک محدود رہتی ہے لیکن ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جو ہمار ازلی حریف ہے وہ پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا پاکستان کی افواج کے کردار پر بھارت نے ہمیشہ سے وار کیا ہے لیکن اللہ کے فضل سے افواج پاکستان ہمیشہ سرخرو ہوئی آج فوج کو سیاسی دعوت دینے والے ہمارے سیاستدان ایک طرح سے بھارت کے معاون ثابت ہورہے ہیں ایسے حضرات کی حوصلہ شکنی لازم ہو چکی ہے انہیں عوام کے دکھ درد سے کچھ واسطہ نہیں انہیں صرف کسی نہ کسی طرح کرسئی اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے آج ہمارا ملک ان تمام سیاستدانوں سے اس بات کا متقاضی ہے کہ انہیں پاکستان کے لئے اپنی سیاسی لڑائیاں کچھ وقت کے لئے روک دینا چاہئیں تاکہ پاکستان مستحکم ہو ترقی کرے عوام خوش حال ہوں پاکستان قرض جیسی بیماری سے شفایاب ہوجائے تو پھر یہ آپس کی لڑائیاں لڑ لیں آج پاکستان میں بھی پاکستان کے مستقبل کے لئے طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور دنیا بھی ہم پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان مضبوط ہوگا تو ہم مظبوط ہونگے اس لئے ہمیں پاکستان کو مظبوط کرنے کے لئے پختہ عزم کرنا ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں تمام اختلافات بھلا کر پاکستان کے لئے ایک ہوجائے ۔