پاکستان کی گستاخیاں امریکہ کی نظر میں
پاکستان میں عوام کی اکثریت یہ سمجھنے میں حق بجانب معلوم ہوتی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو تحریکِ عدمِ اعتماد کے ذریعے گرانے میں امریکہ کا ایک بڑا کردار تھا لیکن اتنا بڑا کردار ادا کرنے کے لئے جس امریکی کو چنا گیا وہ ایک اوسط درجے کا سرکاری عہدیدار تھا۔
ڈونلڈ لُو (Donald Lu) جنوبی اور وسطی ایشیا میں امریکہ کا اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی نائب وزیر خارجہ ہے۔ اسے گزشتہ برس اس ”عہدۂ جلیلہ“ پر فائز فرمایا گیا تھا اور یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ پاکستان اپنی چادر سے باہر نکل رہا ہے، اسے آئینہ دکھایا جائے۔ ڈونلڈ لُو تین سال تک (2018ء تا 2021ء)کرغستان میں امریکہ کا سفیر رہ چکا تھا اور اس سے بھی پہلے تین سال تک (2015ء تا 2018ء) البانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ یہ دونوں ممالک (کرغستان اور البانیہ)، اگر امریکی دوربین یا خوردبین سے دیکھیں تو اتنے بڑے یا اتنے اہم نہیں تھے کہ اسے امریکی وزارتِ خارجہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری تعینات کرکے، پاکستان جیسے ملک کو سبق سکھانے پر مامور کیا جاتا…… لیکن امریکی بہت عقل مند قوم ہیں ……
لُو (Lu) کو گزشتہ برس اس وزارت میں تعینات کرنے سے قبل اس کے پروفائل کی بڑی دِقّت نگاہ سے چھان کی گئی ہو گی۔ پاکستان نہ صرف ایک جوہری ملک ہے بلکہ 22کروڑ کی آبادی کے ساتھ تیزی سے ترقی کی منزلوں کو پھلانگتا ہوا ملک بھی ہے اور یہی چیز امریکیوں کی نگاہوں میں بُری طرح کھٹک رہی ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر (اسد مجید) نے جو مراسلہ بھجوایا یہی وجہ ہے کہ وہ اب پاکستان کے لئے زندگی اور موت (Do or Die) کا سوال بنا ہوا ہے۔
یہ مراسلہ اب ڈی کلاسی فائی ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے جملہ مندرجات اب تک پاکستان کے الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر عام نہیں کئے گئے……نجانے ہمارا میڈیا کس انتظار میں ہے…… کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک اس دھمکی آمیز مراسلے کا ایک ایک لفظ برہنہ کر چکا ہوتا۔ اس لیٹر (Letter) میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ پاکستان اگر عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دے تو پاکستان کی ساری ”خطائیں“ معاف کر دی جائیں گی اور اگر ایسا نہ کیا گیا اور تحریکِ عدمِ اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان کو مشکل اور بُرے دنوں کا سامنا ہو گا!…… جب طاقت کے پاکستانی ایوانوں کے سامنے یہ مراسلہ رکھا گیا تو اسے پاکستان کے داخلی معاملات میں ”ننگی مداخلت (Balatant Intervention) تو قرار دیا گیا لیکن اس مداخلت کے علی الرغم پی ٹی آئی حکومت کو گرا کر گویا امریکی وزارتِ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کی ننگی دھمکی کو شرفِ قبولیت بخش دیا گیا اور ”راتوں رات“ عمران خان کو Exit کا پروانہ تھما دیا گیا۔
امریکی ایک زیرک قوم ضرور ہے لیکن اس کو معلوم نہ تھا کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی یہ پاکستانی قوم، اب ماضی کی طرح ”جی حضوری“ پر ہمہ تن تیار رہنے والی قوم نہیں بلکہ ایک خود دار قوم کا روپ دھار چکی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے۔ پاکستان چونکہ ایک آزمایا ہوا خطہء ارض تھا اس لئے اس پر تحریکِ عدمِ اعتماد کا کلہاڑا چلا دیا گیا۔ لیکن یہ نہ دیکھا گیا کہ اس آزمائی ہوئی قوم کے آزمودہ حکمرانوں کی جگہ ایک ایسا حکمران پاکستان کا وزیراعظم بن چکا ہے جس کی ضد، ہٹ دھرمی اور ڈوب کر ابھرنے کی اہلیت کرکٹ کے میدانوں سے نکل کر عالمی سیاست کے ایوانوں تک پھیل گئی ہے۔ خود پاکستانی قوم کی جمہوری قبا بھی اب مانگے تانگے کی خلعتِ فاخرہ سے نکل کر ”لا اِلہ“ کا نعرہ لگانے والوں کی گدڑی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب وہ اپنے ضمیر سے سوال کرتی ہے:
اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک؟
دنیا حیران ہے کہ غلامانہ ذہنیت کے حامل ان پاکستانیوں کو یکدم یہ کیا ہو گیا ہے کہ اس قیامت خیز گرمی میں بھی وہ عمران خان کی کال سننے کے لئے دشت و کوہ و صحرا میں نکل آتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن مناظر کی حامل وہ اکثریت ہے جس میں نوجوان اور بوڑھی خواتین بھی شامل ہیں اور وہ بچے بچیاں بھی جن کو تمازتِ آفتاب روک نہیں سکی …… عمران خان کی آتش بیانی نے برناو پیر (نوجوان اور بوڑھے) کو یکساں انداز میں پھونک ڈالا ہے۔ جب وہ اونچے منبر پر کھڑا ہو کر بازو لہراتا ہے تو اس کی گردن کی ایک ایک رگ نمایاں ہو جاتی ہے جو اس کی صدق مقالی کی دلیل ہے۔ گویا کہہ رہا ہے:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران کو Absolutely Not کہنے کی سزا دی جا رہی ہے…… لیکن امریکی ایک دانا قوم ہے…… وہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکمرانی کا بغور جائزہ لیتی رہی ہے۔ اور یہ آخری سندیسہ جو ڈونلڈ لُو نے ہمارے سفیر متعینہ امریکہ کو دیا یہ پاک امریکہ تعلقات کے اونٹ کی پشت پر آخری تنکا تھا۔ اس سے پہلے کئی تنکے اس ساڑھے تین سالہ اونٹ کی پشت پر رکھے (بلکہ پھینکے اور مارے)جاتے رہے۔ان تنکوں کی دو اقسام ہیں۔ بعض تنکے بھاری اور موٹے ہیں اور بعض ہلکے اور پتلے ہیں …… چند بھاری تنکے:
1۔ عمران خان کا سب سے بڑا قصور اقوام متحدہ میں ان کی فی البدیہہ تقریر تھی جو انگریزی زبان میں تھی۔ ایسی فائر برانڈ تقریر ذوالفقار علی بھٹو کی یاد دلا گئی۔ مسٹر بھٹو کے بعد عمران خان دوسرا پاکستانی لیڈر تھا جو اس دبنگ لہجے میں انگریزی میں خطاب کر سکتا تھا اور وہ بھی کسی پرچی کے بغیر۔
2۔دوسرا قصور روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تدریجی استواری تھی۔ دونوں ممالک کی افواج کی مشترکہ مشقیں، رشین اسلحہ اور تیل و گیس کی ارزاں نرخوں پر خریداری امریکہ کے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔ پاکستان۔ روس۔ چین کا ٹرائیکا اس خطے میں ایک جوہری ٹرائیکا تھا۔ اس کے توڑ کے لئے امریکہ نے جو کوارڈیکا بنایا اس میں انڈیا، آسٹریلیا، امریکہ اور جاپان شامل تھے۔ جاپان اور آسٹریلیا غیر جوہری ممالک ہیں اور امریکہ بھارت سے بہت دور ہے۔ یہی حال باقی دو ملکوں کا بھی تھا(جاپان اور آسٹریلیا)۔ زود یا بدیر پاکستان۔ چین۔ روس کا جوہری ٹرائیکا تشکیل پا جانا تھا جو امریکہ جیسی زیرک قوم کو منظور نہ تھا۔
3۔پاک چین دوستی کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی تھی لیکن CPEC کی تشکیل و تعمیر نے امریکہ کو شدید ناراض کر رکھا تھا۔
4۔ امریکہ چاہتا تھا کہ عمران خان ماسکو کا دورہ منسوخ کر دے اور روس۔ یو کرائن جنگ میں امریکہ (اور یورپ) کا ساتھ دے۔
5۔OIC میں پاکستان نے چین کو مدعو کرکے مسلم امہ کو ایک نئی راہ دکھائی تھی۔ امریکہ پہلے ہی عراق، شام، افغانستان اور لیبیا سے نکل چکا تھا۔ اگر عرب ممالک بھی OIC کی ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہو جاتے جو پاکستان اور چین چاہتے تھے تو یہ امریکہ کے لئے ایک بڑا سٹرٹیجک دھچکا ہوتا۔
پاک۔ امریکہ تعلقات کے اونٹ کی پیٹھ پر درجِ بالا بھاری تنکوں کے علاوہ چند چھوٹے چھوٹے تنکے یہ بھی تھے مثلاً:
1۔ ریاستِ مدینہ کا بار بار ذکر، اسلامی تاریخ اور رحمت العالمین اتھارٹی کا قیام۔
2۔ پاکستان کا یکساں نظامِ تعلیم بھی امریکی نگاہوں میں ایک بڑا خار تھا۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں انگلش میڈیم سکولوں کی جگہ اردو۔ انگلش میڈیم سکولوں کا تجربہ کیا جائے۔
3۔ پاکستان میں چینی زبان سکھانے کے پانچ کنفیوشس سینٹر کام کر رہے تھے جن میں ہزاروں پاکستانی چینی زبان سیکھ رہے تھے۔ علاوہ ازیں چین میں بھی پاکستانی طلباء اور طالبات کی ایک کثیر تعداد چینی زبان سیکھ رہی تھی۔ پاکستان کے کئی لانگ ٹرم سٹرٹیجک اہمیت کے منصوبے زیر تکمیل / زیر غور تھے۔ مثلاً دیامربھاشا ڈیم، داسو ڈیم وغیرہ اور ایم ایل ون منصوبہ…… یہ سارے پراجیکٹ پاکستان کو امریکہ سے بے نیاز کرنے والے تھے۔
4۔ پاکستانی دفاعی پیداوار کی صنعت میں چین کا عمل دخل ”امریکی ضرورت“ سے زیادہ بڑھتا جا رہا تھا۔
قارئین کرام! پاکستان کی یہی گستاخیاں تھیں جو امریکی انتظامیہ کو نامنظور تھیں۔ یہی وجہ سے کہ پاکستان میں عمران خان نے ”امپورٹڈ حکومت…… نامنظور“ کا نعرہ لگایا ہے…… اس پر مزید روشنی کسی اور کالم میں ……