قومی اتفاق رائے مگر کیسے؟

  قومی اتفاق رائے مگر کیسے؟
  قومی اتفاق رائے مگر کیسے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک پیج کی بات حالیہ سالوں سے بہت معروف ہوئی تاہم یہ دو فریقوں کے لئے استعمال ہوتی رہی اس کا آغاز تحریک انصاف کی حکومت سے ہوا اور یہ صفحہ پھٹ جانے کے باوجود اصطلاح اب تک جاری ہے اگرچہ فریق تبدیل ہو گئے ہیں تاہم میرے لئے یہ بات طمانیت کا باعث ہے کہ اب اس صفحہ کے فریق بڑھ گئے اور میرے سمیت عدالت عظمیٰ، اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور یقیناً قوم بھی ایک صفحہ پر آ گئی ہے کسر صرف یہ ہے کہ ماضی کی جماعت جو دور اقتدار میں شامل تھی وہ تا حال باہر ہے یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ ہم تو مسلسل مذاکرات اور میز پر بیٹھ کر مسائل و تنازعات حل کرنے کی وکالت کرتے رہے جو قبول نہ کی گئی اور اب تو چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کی مکرر تاکید کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس اور اب قومی سلامتی کمیٹی نے بھی قومی اتفاق رائے کا مشورہ دیا ہے یوں جو گزارش ہم طویل عرصہ سے کرتے چلے آ رہے تھے کہ قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے لازم ہے اور یہ کرنا چاہئے اور قومی مسائل کو سیاسی تنازعہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے،ہماری یہ بات نہ سنی گئی اور اب ہر طرف سے یہ ہی کہا گیا ہے لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کہ کہہ تو سب رہے ہیں لیکن عملی قدم نہیں بڑھایا گیا اور معاملہ جوں کا توں ہے اس کے لئے کسی نہ کسی بزرگ اور غیر متنازعہ ہستی کو سامنے آنا ہوگا جو اب نظر نہیں آتی۔

دعا ہے کہ کوئی تو ہو جو آگے بڑھ کے ہوش کا دامن تھام لے اور متحارب فریقوں کو ایک میز پر لے آئے کہ حالات حاضرہ سے نہ صرف قومی تشخص مجروح ہوا بلکہ بیرونی ممالک کی نگاہوں میں بھی ”تحقیر“ پیدا کی گئی اور کی جا رہی ہے ان حالات سے ہمارا ازلی حریف اور دشمن مودی اور اس کا بھارت ہی خوش ہیں اور ان کے ہاں دیوالی کا سماں ہے، بھارت کے پیشہ صحافت سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ فکر اور لڑائیوں سے گریز کرنے والے صحافی بھی اب پس پردہ چلے گئے اور بھارت کا الیکٹرونک میڈیا متعصب پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغلیں بجا رہا اور طعن و تشنیع سے کام لے رہا ہے اس سارے جھگڑے میں میرے مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ بھی کمزور ہوا کہ جی 20 کانفرنس ملتوی نہیں ہو سکی۔ الٹا بھارتی قابض فوج کے مظالم میں اضافہ ہو گیا۔ مودی نے سیکیورٹی کے نام پر فورس کی تعداد میں اضافہ کر دیا اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے حریت کانفرنس نے ہڑتال کی اپیل کر رکھی ہے اور مودی نے اسے گوانتا ناموبے کی شکل دے دی ہے ایسے میں ہماری توجہ حالیہ ہنگاموں کی وجہ سے ادھر سے ہٹ گئی ہے یہ تو آزاد کشمیر کی پیپلزپارٹی کے حضرات نے ذرا توجہ کی اور ایک وفد نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات کر کے تجویز کیا کہ وہ ان تاریخوں میں مظفر آباد آئیں جو جی 20 کے لئے متعین ہیں اور ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد کر کے بھارتی منصوبے طشت ازبام کئے جائیں۔ بلاول نے کشمیر کے حوالے سے اپنے جذبات سے آگاہ کر دیا اور امکان ہے کہ آزاد کشمیر کے وفد کی یہ تجویز مان لی جائے گی۔


بات صرف خارجہ محاذ کی نہیں یہ داخلی اور سرحدی ماحول کی بھی ہے داخلی طور پر ہم معاشی حالات کے خراب ہونے والے امور میں گھر چکے ان سے نکلنے کی راہ نہیں مل رہی حتی کہ ہم من حیث القوم قومی جذبے سے محروم ہو گئے ہیں ہمارے منافع خور بھائیوں کو اللہ کا خوف نہیں تو وہ کسی قانون کو خاطر میں کیوں لائیں گے۔ حکمرانوں نے اب بجٹ قریب آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کی ٹھان لی ہے کہ آئی ایم ایف تو ہاتھ جھٹک اور بازو مروڑ رہا ہے معاہدہ ہو نہیں رہا امداد رکی ہوئی ہے اور اب سارا تعاون چین اور دوست ممالک کا ہے جن کی طرف سے وعدے موجود ہیں لیکن راہ میں یہ ”معاہدہ“ حائل ہے اب اسحٰق ڈار نے جب 9 جون کو بجٹ کا اعلان کر دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کہ معاہدہ ہوتا ہے نہ ہو ہم بجٹ دے دیں گے اور اسی حوالے سے ریلیف کے منصوبے بنائے گئے اور پہلا کام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معتدبہ کمی ہے اور یہ بھی روس کے ساتھ پٹرولیم معاہدہ ہونے اور آرڈر پیش کر دینے کے بعد کے اثرات ہیں اس میں اور بھی ریلیف دی جا سکتی ہے لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم قومی سطح پر بھی پاکستانی قومیت کے جذبے کا مظاہرہ کریں گے اور ہر بار پٹرولیم کے نرخوں میں تھوڑے سے اضافے کے بعد بھی من مرضی کے کرائے مقرر کرنے والے اور اشیاء ضروریہ کو مہنگا کرنے والے پاکستانی بنیں گے یا ناجائز منافع چھوڑ کر جائز روزی کے وسیلے سے اللہ کو راضی کریں گے اور اس کی مخلوق کی دعائیں لیں گے اور اگر یہ حضرات ایسا نہیں کرتے تو ہماری حکومتوں اور انتظامیہ کو ہمت ہونا چاہئے کہ وہ ایسے حضرات کی پکڑ دھکڑ اور جرمانوں کی بجائے ان کو مارکیٹ میں مات دیں اور اشیاء کی قلت پیدا نہ ہونے دی جائے۔ آج تربوز، ٹماٹر اور پیاز کی فاضل پیداوار مارکیٹ میں آ جانے سے ان کے نرخ کم ہو گئے ہیں لیکن مرغی مافیا نہ معلوم کیا کسر پوری کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی پیداوار کا دھیان کر کے ایسا نظام وضع کر دیا جائے کہ کسان اور دکان دار درمیان میں آڑھتی اور ذخیرہ اندوزوں سے بچ جائے اور مال براہ راست بازار میں آ جائے اسی طرح درآمدی اشیاء خوردنی بھی ضرورت سے زیادہ درآمد کر کے ضرورت پوری کی جائے تو رعایت ہو گی ورنہ تین روز ہو گئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی ہوئے، ابھی تک اس کے اثرات مرتب نہیں ہوئے حتی کہ کرائے کم نہیں کئے گئے۔


یہ گزارشات تو کر لیں اب ایک عوامی رائے کا ذکر کئے بغیر بات نہیں بنتی ہمارے بھولے عوام ان دنوں عدلیہ سے بہت خوش اور مطمئن ہیں کہ دھڑا دھڑ انصاف ہو رہا ہے اب تو درخواست کی سماعت کے لئے انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا ایک ہی روز میں درخواست دائر نمبر لگ جاتا سماعت ہوتی اور ریلیف بھی مل جاتا ہے تو عدلیہ کے بارے میں سست روی کا الزام غلط ثابت ہو گیا ہے اب تو عدالت ”مظلوم درخواست دہندہ“ کا انتظار کرتی اور اسے ”ظالم انتظامیہ“ سے تحفظ بھی دیتی ہے اس لئے جو حضرات عدلیہ کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں ”عوام اور قوم“ ان  سے متفق نہیں یہ تو عوامی رائے تھی جو بتا دی اور یقین ہے کہ عدلیہ اپنا ”منصفانہ رویہ“ برقرار رکھے گی۔
حقیقتاً تو ان حالات کے حوالے سے عرض کرنا چاہئے تھا جو ”قومی اتفاق رائے“ اور ”نان ٹالرنس“ والے اصولوں کا باعث بنے ہیں خان صاحب کے اس مطالبے سے سو فی صد متفق ہوں کہ ایک آزاد بااختیار کمشن بنایا جائے جو ان تمام واقعات کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرے جو 9 مئی کو پیش آئے اور جسے سیاہ دن کہا جا رہا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ سب اس کا اعلان کرتے ہوئے بھی اس کمشن کی ہیئت کے بارے میں مختلف الخیال ہیں عمران خان نے چیف جسٹس سے اپیل کی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے جے آئی ٹی بنا دی اور وزیراعظم کور کمانڈرز کی رائے سے متفق ہیں اور ملٹری ایکٹ کے علاوہ سیکریٹ سروس ایکٹ سے تحت کارروائی کی جائے گی اب تک گرفتاریوں اور رہائی والا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ کور کمانڈرز میٹنگ کے بعد ملٹری ایکٹ کے تحت بھی نامزدگی شروع ہو گئی ہے اور یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے حالانکہ اس کی جلد تکمیل کے اعلان کئے گئے ہیں یہ موضوع بہت حساس اور تفصیل طلب ہے کوشش کروں گا کہ توہین پارلیمنٹ، ایمرجنسی والی توقعات اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے بھی تجربات شیئر کر سکوں۔

مزید :

رائے -کالم -