بہار نے جو کِھلاۓ ہیں گل سرگلشن۔۔۔ یہ اہتمام ہے بس موسمِ خزاں کے لئے
کوئی تو حرفِ سکوں، قلبِ خونچکاں کے لئے
تمہارا نام لکھا دل پہ حرزِ جاں کے لئے
جلا دیں برقِ ستم نے اِنہیں بہ یک لحظہ
رکھی تھیں تیلیاں میں نے جو آشیاں کے لئے
بہار نے جو کِھلاۓ ہیں گل سرگلشن
یہ اہتمام ہے بس موسمِ خزاں کے لئے
غبارِ دشت میں گم ہے تو غم نہ کر رہرو
یہ کارواں ہی نہیں میرِ کارواں کے لئے
زمین زادوں کی قسمت میں ہے غبارِ زمیں
اور آسماں کے ستارے ہیں آسماں کے لئے
کسی نے بزمِ شہی میں اگر زباں کھولی
ملے ہیں سوزنِ لب دوختہ زباں کے لئے
سفر یہاں کا ہے درپیش جعفری سب کو
خدا را کُچھ تو ہو زادِ سفر وہاں کے لئے
کلام :مقصود جعفری