ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

تحریر:مشتاق احمد یوسفی
قسط:1
مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔
ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجئے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔
اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آ سکتی چونکہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لٰہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔
یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جوبین فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہےجہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ”پڑھ“ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،”فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔“
اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یانہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ در اصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتاہے۔ ان کوقومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اورمعاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔
کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کااظہار کرنا اپنی نا واقفیت عامہ کاثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعدبلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسید احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،”الٰہی میری بچوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔“
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیرنہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سرپھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہوجائے۔مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستورنہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کرکے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجودین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔
اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچوں کاسا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ ( جاری ہے )