جب علامہ اقبال نے پنجاب کے دولت مند رئیس کی کوٹھی میں قیمتی بستر پر سونے سے انکار کر دیا اور روتے ہوئے ملازم کو اپنے لیے چارپائی لانے کیلئے کہا

 جب علامہ اقبال نے پنجاب کے دولت مند رئیس کی کوٹھی میں قیمتی بستر پر سونے سے ...
 جب علامہ اقبال نے پنجاب کے دولت مند رئیس کی کوٹھی میں قیمتی بستر پر سونے سے انکار کر دیا اور روتے ہوئے ملازم کو اپنے لیے چارپائی لانے کیلئے کہا

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی

 قسط:21

 اس سلسلے کے دو ایک اور واقعات بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:۔

”ایک دفعہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لئے اقبال ، سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جن رسولِ پاکﷺ کی جوتیوں کے صدقے میں ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں، انہوں نے بوریئے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوﺅں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر نکلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے میں سوتے رہے۔“ (سیرتِ اقبال بحوالہ جوہر اقبال)

اقبال کی غیرتِ اسلامی اور حمیت  محمدی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ وہ ہے جب کہ انہوں نے مرض الموت میں انتہائی ضعف و پیری کے باوجود علمائے ہند کے سرخیل مولانا حسین احمد مدنی سے ان کے نظریۂ قومیت پر ٹکر لی۔ مولانا نے اپنی ایک تقریر میں یہ نظریہ پیش کیا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے یکسر خلاف تھی۔ اقبالؒ جنہیں حضورﷺ کے نام تک کی بے ادبی مضطرب کر دیتی تھی، حضور ﷺکی تعلیمات کی یوں برسر منبر خلاف ورزی کیوںکر گوارا کر سکتے تھے۔ اس سے انہیں بڑا کرب ہوا اور اسی کرب و اضطراب کے عالم میں ان کے دل سے وہ 3 شعر نکلے جو ان کے عشق رسولؐ کی طرح حیات جاوداں حاصل کرچکے ہیں۔ وہ 3 شعر یہ ہیں:۔

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ

زویو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است

سرودبرسرِمنبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است

بہ مصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست

اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است

آپ چاہیں تو اس آخری شعر کو اقبال کے پیغام اور ان کی ساری شاعری کا ماحصل سمجھ لیں۔

حبیب سے سچی محبت کے تقاضے میں وہ چیزیں بھی عزیز اور محبوب ہو جاتی ہیں جنہیں حبیب سے کوئی نسبت ہو۔ اقبال جس کارواں سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے سالار حجازی ہیں اس لئے انہیں حجاز اور ہر حجازی چیز سے محبت ہے۔ شریف  مکہ ملت کفر کے ساتھ مل کر وحدتِ اسلامی کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔ لیکن اسے حضور ﷺسے ایک گونہ نسبت ہے۔ اس لئے اقبال اس کے خلاف بھی زبان نہ کھولنے کی سفارش کرتے ہیں:۔

متاعِ قافلہ ماحجاز زیاں بردند

دے زباں نکشائی کہ یار ماعربی است

وہ جسمانی طور پر کشمیر کے خطہ جنت نظیر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے جسم کا وہ حصہ جس کے صلاح و فساد پر پورے جسم کی صلاح و فساد کا انحصار ہوتا ہے یعنی دل حجازی ہے:۔

تنم گلے زخیابانِ جنت کشمیر

دلِ از حریمِ حجاز و نواز تبریز است

ان کے کلام کا قالب اگرچہ عجمی ہے مگر اس کی روح بھی حجازی ہے:۔ 

عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

کوئی دیکھے تو میری نے نوازی

نفس ہندی مقامِ نغمہ تازی

گر اپنے ساز کے مضراب کی عجمیت کو وہ نہ بدل سکے لیکن ان کے ذوقِ وفا نے اس سے ہر پھوٹنے والے نغمہ کو عربی بنا دیا:۔

مرا ساز گرچہ ستم رسیدہ زخمہائے عجم رہا

وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی

عربیت سے ان کے عشق کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے روحانی سفرِ حجاز میں آہنگِ عرب سے ناواقفیت کے باوجود حُدی خواں کی آواز میں آواز ملا دیتے ہیں۔ معنی نہ سہی صورت ہی سہی:۔

ندانم گرچہ آہنگ عرب را

شریک نغمہ ہائے ساربانم

حجاز پہنچ جانے کو وہ کمال سعادت تصور کرتے ہیں۔ حضرت بلالؓ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:۔

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا

اٹھا کے تجھ کو حبش سے حجاز میں لایا

یثرب کو نہ صرف حضور ﷺے مامن و مسکن بلکہ لاحق ہونے کا شرف بھی نصیب ہوا۔ اس لئے اس کی خاک ان کی نظر میں دولت سے بھی زیادہ گراں بہا اور اس کی گلیوں کا غبار ان کی آنکھوں کے لئے سرمۂ بصیرت کی حیثیت رکھتا ہے:۔

( جاری ہے )

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -